کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 29
٭ اس مقام پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ایک تو یہ تقریبات ہیں جو خاص طور پر اس مقصد کے لئے منعقد کی جاتی ہیں ۔ دوسری وہ تقریبات ہیں جن میں دوسرے مقاصد پیش نظر ہوتے ہیں اور ضمناً یہ چیز بھی شامل ہوتی ہے۔ اگر اس تقریب کا بنیادی مقصد یہ نہ ہو، اور ان میں حاضر ہونے میں مسلمانوں کا کوئی واضح مفاد ہو تو ان میں حاضر ہونا جائز ہے۔ لیکن جب مذہبی رسوم ادا کی جائیں تو مسلمان ان سے الگ رہیں ۔اس طرح فائدہ بھی حاصل ہوجائے گا اور خرابی سے بچاؤ بھی ہوجائے گا۔
٭ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر کسی نے ایسا اجلاس بلایا ہے جس میں مختلف مذاہب اور مختلف ثقافتوں کے افراد شامل ہیں ، اور وہ لوگ اس اجلاس میں مسلمانوں پرہونے والے ظلم و تشدد کی مذمت کرنا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ مسلمان اس جلسہ سے غیر حاضر نہیں رہ سکتے جو منعقد ہی ان کے لئے کیا گیا ہے، وہاں وہ اپنا مسئلہ تفصیل سے بیان کرسکتے ہیں اور الزامات کاجواب دے سکتے ہیں ۔ اگر اس پر وگرام میں مذہبی عمل کی کوئی شق موجود ہو، تو غیر مسلموں کے اس کی ادائیگی کے وقت مسلمان اس سے اجتناب کریں ۔
غیر مسلموں کی قومی تقریبات میں شرکت ؟
٭ سوال ۳۸: کیا قومی تقریبات مثلاً مارٹن لوتھر کے یومِ پیدائش کی تقریبات میں اس مقصد کے لئے شرکت جائز ہے کہ معاشرے میں مسلمانوں کے وجود کا احساس دلایا جائے؟
جواب:عید اور جشن مذہبی اعمال میں شامل ہیں ۔ مسلمان کو مسلمانوں کے ملک کے اندر بھی اور باہر بھی صرف شرعی عیدیں ، یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی منانا چاہئیں ۔ اس سے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ اسے کسی یقینی یاغالب شر سے بچنے کے لئے ان پر حاضر ہونا پڑے۔ یا اس کا مقصد محض تبلیغ و دعوت کا ایسا کام ہو جو صرف ان تقریبات کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ان جشنوں اور تقریبات میں سے جس کی بنیاد مذہبی تصورات پرہو، ان کے بارے میں یہی قطعی فیصلہ ہے۔ باقی رہیں قومی تقریبات، تو ان کا معاملہ نسبتاً نرم ہے اور یہ اُصول قائم رہے گا کہ