کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 25
گراؤنڈ میں تصویریں ، موسیقی یابے پردہ عورتوں کی تصویریں موجود ہوتی ہیں ، کیاایسی فلمیں اس ہال میں دکھائی جاسکتی ہیں جس میں نماز ادا کی جاتی ہے؟ اگر دوسرے کمرے میں دکھائی جائیں ، جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی، تو کیاحکم بدل جائے گا؟
جواب:اُصول یہ ہے کہ مسجدوں کو حرام اور مشتبہ کاموں سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ انہیں اللہ کی عبادت اور اطاعت کے کاموں کے لئے مخصوص رہنا چاہئے۔ اس بات کا ان مساجد میں زیادہ خیال رکھنا چاہئے، جہاں سے لوگ دین سیکھتے ہیں ، اور جن میں ہونے والی کاموں کی اقتدا کرتے ہیں ۔
فلموں کے معاملے میں دو پہلوقابل غور ہیں :
٭ ایک پہلو یہ ہے کہ ان میں جو تصویریں ہوتی ہیں ، یا ان کے لئے جوتصویریں کھینچنا پڑتی ہیں ، یہ ٹیلیویژن کے معاملے میں محل نظر ہیں ۔ ہمارے دین میں یہ بذاتِ خود حرام نہیں کیونکہ یہ ان صورتوں سے قریب ہیں جو آئینے میں نظر آتی ہیں یا پانی میں دیکھنے سے نظر آتی ہیں ۔[1]
دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان میں بعض خلافِ شریعت چیزیں پائی جاتی ہیں ، جیسے سوال میں اشارہ کرتے ہوئے بے پردہ عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے، یا ان فلموں کے ساتھ بعض اوقات تصویری موسیقی پائی جاتی ہے تو یہ واضح طور پر غلط کام ہے۔ پہلی چیز (بے پردہ عورتوں کی تصویروں کی حرمت) کے بارے میں تو اجماع ہے۔ دوسری چیز (تصویری موسیقی) کے بارے میں کم از کم جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مشتبہ ہے۔ یعنی ہمارے سامنے ایسی چیز آگئی ہے جس میں فائدہ اور خرابی دونوں موجود ہیں ۔ اگر اس کا فائدہ واضح اور غالب ہو تو ان فوائد کے حصول کے لئے ان کی اجازت [2] دی جاسکتی ہے اور اس کی خرابیوں کوختم یا کم کرنے کے لئے مسلمان حسب ِطاقت اللہ کاتقویٰ پیش نظر رکھے۔ مثلاً جب بے پردہ عورتوں کی تصویریں آئیں تو نظر جھکالے اور جب موسیقی آئے تو اسے توجہ سے نہ سنے۔ البتہ احتیاط اسی میں ہے
[1] سوال چونکہ عام غیر مسلم عورت کے بارے میں ہے اور جواب میں صرف کتابیہ عورت کو سامنے رکھا گیا ہے جواب میں اس امر کی وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ کتابیہ کے علاوہ دیگر خواتین سے نکاح مطلقاً حرام ہے ۔ جیسا کہ آنے والے سوال کے جواب کی تصریح ہے ۔ (مدنی )
[2] ایسا شخص روزہ رکھ سکتا ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے ۔