کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 23
سکھانے کے لئے آتے ہیں جو مسلمانوں کے لئے فائدہ مند ہے، تو اس قسم کے معاملات میں تعاون کرنا چاہئے۔ ٭ اگر اس میں دعوت و تبلیغ کے نقطہ نظر سے فائدہ ہو، اور اس کے ساتھ کوئی اس سے بڑی خرابی نہ ہو، تو بھی اس میں حرج نہیں ۔ جب کہ ایسے پروگرام منعقد کرانے والوں کی نیت شروع میں بھی نیک ہو اور بعد میں بھی ہمیشہ نیک رہے۔ جب کہ اس سلسلے کا اصل مقصد اللہ کی طرف بلانا، اور اسلام کو دوسرے مذاہب سے برتر ثابت کرنا ہو۔ اس کی مثال وہ مناظرے ہیں جو مسجدوں اور کلیساؤں میں ہوتے ہیں تاکہ حق واضح ہو، اور حجت قائم ہو۔ اس مقصد کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے ہونے والی ملاقاتیں اور دوسری ملاقاتیں جن کا تعلق تبلیغ اور اس کے پروگراموں سے ہو، وہ سب اس میں شامل ہیں ۔ ٭ ان فوائد کا اندازہ لگانا مسجد کے اہل حل و عقد کا کام ہے۔باقی افراد کو ان کاساتھ دینا چاہئے، اور انہیں بہتر مشوروں سے نوازنا چاہئے، کیونکہ ایسے معاملات میں اکثر غلط فہمیاں اور لغزشیں ہوجایا کرتی ہیں ۔ ان سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے، جسے اللہ محفوظ رکھے۔ ٭ اگر ان اجتماعات میں مذکورہ بالا فوائد نہ ہوں ، بلکہ ان کامقصد محض غیر مسلموں سے میل ملاپ بڑھانا، ان کااحترام کرنا، اور ان سے محبت کا اظہار کرنا ہو، جب کہ اس میں مسلمانوں کاکوئی واضح فائدہ نہ ہو، اور دعوت و تبلیغ کا بھی کوئی واضح فائدہ نہ ہو، تو یہ بنیادی طور پرممنوع ہیں ۔ اس کی دلیل ان نصوص کاعموم ہے جو مؤمنوں سے محبت رکھنے کا حکم دیتی ہیں اور کافروں سے دلی دوستی کرنے، اور مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو ہم راز بنانے سے منع کرتی ہیں اور اس لئے بھی کہ مسجدوں کا احترام برقرار رکھنا واجب ہے۔ واللّٰه أعلم غیر مسلم خواتین کی نامناسب لباس میں مسجد میں آمد؟ ٭ سوال ۳۰: اگر ہم غیر مسلموں کو مسجد میں آنے کی دعوت دیں تو ان عورتوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں جو نامناسب لباس پہن کر مسجد میں آجائیں گی، اسی طرح مردوں اور