کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 21
عقل ہوں اور صدقہ فطر کا منتظم ہی ان کا سرپرست ہو۔ لیکن یہ فرض کرلینا کہ تمام حاجت مند کم عقل ہیں ، جن کے معاملات کے نگران اور ان کی طرف سے ان کے مال میں تصرف کرنے والے وہی ہیں جوصدقہ فطر اداکرنے والے ہیں ، تو یہ سوچ درست نہیں ، واللہ أعلم
صدقہ فطر کو عید سے چندروز قبل تقسیم کرنا؟
٭ سوال ۲۷:کیا یہ جائز ہے کہ صدقہ فطر شریعت کی طرف سے مقرر کردہ وقت سے پہلے ہفتہ وار چھٹی کے دن تقسیم کردیاجائے۔ کیونکہ اس دن رضا کارانہ کام کرنے والے افراد زیادہ تعداد میں مل سکتے ہیں ، جو کسی دوسرے وقت دستیاب نہیں ہوتے؟
جواب:صدقہ فطر کا اصل مقصد یہ ہے کہ عید کے دن غریبوں کو مانگنے کی ضرورت نہ رہے، لہٰذا یہ صدقہ ان تک اس انداز سے پہنچنا چاہئے کہ یہ مقصد حاصل ہوجائے۔ اسے نمازِ عید سے موخر کرنا جائز نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ وہ نمازِ عید کے لئے نکلنے سے پہلے ضرور ادا کردیاجائے اور فرمایا: ’’جس نے اسے نماز سے پہلے ادا کیا تو یہ مقبول صدقہ ہے، اور جس نے نمازِ (عید) کے بعد ادا کیا، تووہ صدقوں میں سے ایک (عام) صدقہ ہے۔‘‘
اس کی ادائیگی نمازِ عید سے متصل پہلے یعنی فجر کی نماز اور عید کی نما زکے درمیان بھی ہوسکتی ہے بلکہ عید کی رات کو بھی ہوسکتی ہے۔ اسے عید سے ایک دو دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے جیسے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور یہی عام فقہا کی رائے ہے۔ بعض علماکے قول کے مطابق آدھا مہینہ پہلے بلکہ مہینے (رمضان) کے شروع میں بھی درست ہے۔ میرے خیال میں اس امر کا تعلق صدقہ فطر کے شرعی مقصد سے ہے اور وہ مقصد ہے عید کے دن حاجت مندوں کو مانگنے کی ضرورت نہ رہنے دینا۔ چونکہ عید سے پہلے ادا کرنے سے بھی یہ مقصدحاصل ہوجاتا ہے، اس لئے اس معاملے میں گنجائش ہے۔ واللّٰه أعلم
چندے کے ڈبوں میں صدقہ فطر کی رقم کی تقسیم؟
٭ سوال ۲۸:اسلامی مراکز صدقہ فطر کی اس رقم کاکیا کریں جو مسلمان، نمازِ عید سے