کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 20
جواب:اس تصور میں غالباً دو اجتہاد جمع ہوگئے ہیں جو اس مسئلہ میں وارد ہیں ۔ اس سے یہ تسلی بھی ہوجاتی ہے کہ صدقہ فطر کی رقم صرف غذائی اشیا پر صرف ہو جیسے اکثر فقہا کا قول ہے، اس کے ساتھ ساتھ غذائی اشیا کے انتخاب کی اور ضرورت کے وقت میسر آنے کی سہولت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ غریب آدمی کے پاس غلے کاڈھیر لگ جائے جس کی اس کو ضرورت نہ ہو، یا ضرورت ہولیکن دوسری اشیا سے کم ضرورت ہو، اور بجائے اس کے غریب آدمی کے پاس اتنا غلہ جمع ہوجائے جسے سنبھالنا اور سٹور کرنا اس کے لئے مشکل ہو، اس تصور سے یہ موقع ملتا ہے کہ غلہ اُٹھائے پھرنے کی بجائے وہ یہ کوپن لے لے جن سے وہ اپنی مرضی کے مطابق، اور ضرورت کے وقت کھانے پینے کی چیز حاصل کرسکتا ہے۔ اس طرح وہ نہ ان غذائی اشیا کو وصول کرنے پر مجبور ہوتا ہے جن کی اسے ضرورت نہیں ، نہ اس وقت وصول کرنے پر مجبور ہوتا ہے جب اسے ضرورت نہیں ہوتی۔ اور پھر غذائی اشیا کے دائرہ سے باہر بھی نہیں نکلتا، جبکہ صدقہ فطر کے مسئلہ میں اکثر فقہا اس دائرہ تک محدود رہتے ہیں ۔ اس طرح صدقہ فطر کا مقصود کامل ترین انداز سے پورا ہوجاتا ہے۔ اور کسی معاملہ میں جب شارع کا مقصود معلوم ہو، تو اس کو حاصل کرنے کے لئے وہ راستہ اختیار کرنا چاہئے جس سے اس کا حصول زیادہ ممکن ہو۔ واللہ أعلم
صدقہ فطر کے مال سے کپڑوں کی تقسیم کردینا؟
٭ سوال ۲۶: کیا صدقہ فطر کی رقم سے کپڑے خرید کر ان افراد یا خاندانوں کو دیے جاسکتے ہیں جن کے پاس ضرورت کے مطابق لباس نہیں ہے؟
جواب:اگر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم خیال علما کا قول پیش نظر رکھا جائے، جو صدقہ فطر میں قیمت ادا کرنا جائز سمجھتے ہیں اور اس مقام پر اس اجتہاد کا اعتبار کیاجاسکتا ہے تو اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ غریب آدمی کو اس رقم کا مالک بنا دیا جائے اور وہ اپنی مرضی سے حسب ِضرورت اسے خرچ کرے۔ سواے اس صورت کے کہ یہ غریب لوگ یتیم بچے ہوں یا کم