کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 16
إذا التقی المسلمان بسیفیہما فالقاتل والمقتول کلاہما فی النار فقلت یا رسول اللّٰه ہذا القاتل فما بال المقتول قال إنہ کان حریصا علی قتل صاحبہ
’’جب دو مسلمان ایک دوسرے کے مقابل تلواریں سونتتے ہیں تو (اس لڑائی میں ) قتل کرنے والا اور قتل ہونے والا دونوں ہی جہنمی ہیں ۔ میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! قاتل کا جہنمی ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مقتول کے جہنمی ہونے کی کیا وجہ؟ آپ نے فرمایا : وہ بھی تو اپنے مدمقابل کو قتل کرنے کے لئے کوشاں تھا۔‘‘
اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دو مسلم گروہوں میں قتل ومخاصمت پر جہنم کی وعید کے بعد اس غارت گری کا اسلام سے جواز نکالنا بڑی زیادتی ہے۔ خدانخواستہ اس حدیث کی رو سے مولانا اعظم طارق کی شہادت پر ہم کوئی حکم نہیں لگانا چاہتے کیونکہ اس قتل وغارت گری میں ان کا شریک ہونا یا اسے پسند کرنا ایک عالم دین ہونے کے ناطے ناممکن ہے تاہم اس حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ اسلام فرقہ وارانہ قتل وغارت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔
ہماری نظر میں مولانا اعظم طارق کے قتل کا یہ واقعہ خالص فرقہ وارانہ عصبیت کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مولانا اعظم طارق نے جھنگ میں قومی اسمبلی کا حالیہ الیکشن معروف شیعہ رہنما سیدہ عابدہ حسین کی حمایت میں جیتا تھا۔ اسی طرح مولانا اعظم طارق متحدہ مجلس عمل کی بجائے مسلم لیگ (ق ) کے ساتھ تھے۔کسی فرقہ وارانہ اشتعال سے بڑھ کر اس سانحہ کے پس پردہ عالمی سیاست اور پاکستان میں اس کے مخصوص مفادات کارفرما ہیں ۔تازہ سانحہ سے متاثر ہو کر اگر پاکستان میں موجود سنی اکثریت شیعہ حضرات اور ایران سے بددل ہوجائیں اور ملکی سطح پر ایران مخالف جذبات پروان چڑھیں تو اس سے عالمی سیاست کے تناظر میں امت ِمسلمہ کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے، اس کا اندازہ اہل نظربخوبی کرسکتے ہیں …!!
اُمت ِمسلمہ کو درپیش ان مشکل حالات میں ہماری حکومت، سیاسی جماعتوں ، دینی اور مذہبی حلقوں ، علمائِ دین اور دانشوروں کا مولانااعظم طارق کے قتل کے پردے میں مُستور عالمی خطرات و خدشات کو بے نقاب کرنا اور اسلام دشمن قوتوں کی سازش کا اِدراک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ایسے نازک وقت میں ملت دشمن عناصر کو پہچاننا اور آپس میں اتفاق ویکجہتی کو فروغ دینا ہی وقت کا اوّلین تقاضا ہے…!!