کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 15
تعلقات کی درخشاں تاریخ کے حامل ہونے کے باوجود متحارب قوتوں کے طور پر پہچانے جانے لگے تھے۔ مسلم ہمسایہ ملک سے پاکستان کے تعلق کو خراب کرکے جہاں امریکہ اور مغربی طاقتیں ایران اور افغانستان پر اپنے استعماری پنجے گاڑنے میں آسانی محسوس کریں گی۔ وہاں خود پاکستان کو اسلامی ہمسایوں سے الگ کرکے اسے تنہا کردینے کے بھارتی اور اسرائیلی خواب شرمندہ تعبیر ہوسکیں گے۔
یہ قرین قیاس ہے کہ مولانااعظم طارق اور ان کے ساتھیوں کے قاتل پاکستانی ہوں ۔ کیونکہ خلافِ اسلام عالمی سازش کا طریق کار یہی ہوتاہے کہ وہ بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان اختلافی مسائل میں تناؤ سے فائدہ اٹھاتی ہیں ۔ ان حلقوں کے جذباتی عناصر کی نشاندہی کرتی ہیں اور پھر ان کے نظریات و عقائد کی پرجوش حمایت کرکے انہیں ’مخالف قوتوں ‘ کو نیست ونابود کردینے کا نفسیاتی درس دیتی ہیں ۔ اس مقصد کے لئے انہیں جدید ترین سہولتیں ، معلومات اور تربیت مہیا کرتی ہیں اور مالی مفادات کے رنگین خواب دکھاتی ہیں ۔ ان کے آلہ کار بننے والے لوگوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ ملک وملت کے دشمن کسی ایجنڈے کی تکمیل کا اہم کردار بن رہے ہیں لیکن ان میں مخصوص جذبات اُبھار کر انتشار پسند عناصر اور ملکی وغیر ملکی ایجنسیاں اپنے تخریبی پروگراموں کی تکمیل کرتی ہیں ۔پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے پس پردہ یہی طریقہ کار فرما ہے۔ کسی مکتب ِفکر کے نمایاں رہنما کو قتل کرکے ایجنسیاں اسے یہ رنگ دیتی ہیں گویا یہ متحارب گروہ کی کارفرمائی ہے ، متاثرہ گروہ کے افراد کے جذبات کو خوب بھڑکایا جاتا اور قتل کے واقعہ کو من مانے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اطمینان سے بیٹھے دو مختلف الخیال گروہوں میں مخاصمت اور قتل وغارت سر اُٹھالیتی ہے۔
اسلام کسی طور پر بھی شدت پسندی اور اس قتل وغارت گری کی اجازت نہیں دیتا۔یہ ہمارے مخصوص ذہنی تعصبات اور فرقہ وارانہ رجحانات ہیں جنہیں اسلام کے لبادے میں پیش کیا جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واضح فرمان اس سلسلے میں اسلام کا موقف بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: