کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 14
افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ ایک اطلاع کے مطابق کم از کم ۲۸ سفارتی اڈّے قائم کرچکا ہے۔ جہاں شمالی اتحاد کے پاکستان مخالف عناصر کو پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا جارہا ہے۔ ایک اور اطلاع کے مطابق بھارتی حکومت کی زیر نگرانی اربوں روپے کے مالیتی پاکستانی نوٹ جعلی طور پر چھاپ کر افغانستان سرحد کے راستے وطن عزیز میں پھیلائے جارہے ہیں ۔ تاکہ پاکستان کی سنبھلتی ہوئی معیشت کو ایک مرتبہ پھر زوال آمادہ کیا جاسکے۔ پاکستان کا ایک دوسرا پڑوسی اور قابل اعتماد دوست ایران ان دنوں امریکی دباؤ کاشکار ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا زوروشور سے یہ مہم چلا رہی ہے کہ ایران بہت جلد ایٹمی قوت بننے والا ہے۔ بھارتی اور اسرائیلی لابیوں کی طرف سے یہ افواہ بھی عالمی سطح پر پھیلائی جارہی ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں پاکستان کی خفیہ امداد شامل ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک قرارداد کے نتیجے میں ان دنوں بین الاقوامی ایٹمی کھوج رساں ایران کا دورہ کررہے ہیں ۔ جبکہ ایران یہ اعلان کرچکا ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کی افزودہ یورنیم تیار کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیاں اس امر کے اشارے بھی دے رہی ہیں کہ اگر ایران نے ایٹمی پروگرام کوترک نہ کیا تو یہ امر امریکی حملے کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ مولانا اعظم طارق کے قتل کو اگر مذکورہ بالا تناظر میں دیکھا جائے تو اس قتل کے پیچھے کسی گہری بین الاقوامی سازش کے امکان کو ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ ایران پر امریکی حملے کی صورت میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اس برادر اسلامی ملک کی اخلاقی اور عملی مدد کرسکتا ہے۔ پاکستان کو اس ا صلاحیت اور کردار سے محروم رکھنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر جو کوششیں ہورہی ہیں ، ان میں ایران اور پاکستان کے تعلقات کو اس حد تک کشیدہ بنانا بھی شامل ہے کہ کسی مشکل گھڑی میں پاکستان اپنی ناراضگی کے سبب ایران کی مدد کرنے سے انکار کردے۔ اس امر کا مظاہرہ افغان جنگ کے دوران بھی کامیابی سے کیا جاچکا ہے جب فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو اس انتہا تک پہنچا دیا گیا تھا کہ دونوں مسلم ممالک بہترین