کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 13
عوامی سطح پر مولانا اعظم طارق کے قتل سے زبردست ردِعمل پیدا ہوا۔ اسلام آباد میں نمازِ جنازہ کے بعد شدید ہنگامے رونما ہوئے۔ متعدد گاڑیاں تباہ کردی گئیں ۔ ایک سینما گھر جلا دیا گیا۔ دکانوں اور پلازوں پر پتھراؤ ہوا۔ اس کے علاوہ پشاور، کوئٹہ، گوجرانوالہ، ساہیوال، کراچی، چیچہ وطنی، سکھر، لاڑکانہ، حافظ آباد، سرگودھا اور جھنگ میں مظاہرے ہوئے۔ جھنگ میں وزیرداخلہ فیصل صالح حیات کے گھر پر حملہ میں توڑ پھوڑ ہوئی۔ ایک عبادت گاہ کو آگ لگا دی گئی اور فائرنگ کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ وزیرداخلہ کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ اس سانحے کی ذمہ داری وزارتِ داخلہ پر عائد ہوتی ہے۔ جبکہ وزیرداخلہ نے جواباً کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ لاشوں پر سیاست چمکانے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی فضا میں اس واقعہ کے بعد جو جذباتی اشتعال پیدا ہوا ہے، اس سے نپٹنے کے لئے ۸/اکتوبر کو پنجاب بھر میں جلوسوں پر پابندی عائد کردی گئی اور اسلحہ کی تلاش کے لئے خصوصی مہم چلانے اور متعلقہ لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کے فیصلے کئے گئے۔
حالات و واقعات کے مذکورہ بالا بہاؤ کے پیش نظر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا اعظم طارق پرحملہ کے پس منظر میں کیا مقاصد کارفرما تھے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی کے لئے صرف مولانا اعظم طارق ہی کو کیوں منتخب کیا گیا اور انہیں بے رحمانہ طریقے سے قتل کرنے کے لئے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ اس قت عالمی سیاست میں مسلمان ممالک جس دباؤ، پریشانی اور قیادت کے خلا سے گزر رہے ہیں ؛ وہ ہر اہل نظر پر عیاں ہے۔ ایک طرف امریکہ ایک عالمی غنڈے کی حیثیت سے اپنی اندھی طاقت کے زعم میں مسلمان ممالک کے عقیدے اور موجودہ سیٹ اَپ کو زیر و زبر کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ تو دوسری طرف اسرائیل اور بھارت پاکستان کی نظریاتی اساس کو فرقہ واریت کی تیز دھار تلوار سے ذبح کرنے کے لئے زیر زمین سازشوں میں مصروف ہیں ۔ پاکستان کے قرب و جوار میں اہم لیکن پاکستان کے لئے تشویش ناک واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں ۔