کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 12
تھے اور برسراقتدار پارلیمانی پارٹی کا حصہ تھے۔
مولانا اعظم طارق پر دہشت گردوں کے حملے کے خلاف عوام میں جو فوری ردِعمل سامنے آیا؛ وہ یہی تھاکہ مولانا اعظم طارق کے قتل میں اگرچہ پاکستان میں سرگرم تشدد پسند عناصر کا ہاتھ ہے لیکن دراصل اس اقدام کی جڑیں ایک عظیم بین الاقوامی سازش تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ جو ایران اور پاکستان کی لازوال دوستی کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں ۔ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمن نے ایک بیان میں کہا کہ مولانا اعظم طارق کا قتل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے مولانا کے قتل کو ایک گھناؤنی سازش قرار دیا۔جبکہ مولانا اجمل قادری نے کہا کہ یہ ملکی امن کو برباد کرنے کی بیرونی کوشش ہے۔ قاری زوار بہادر، مولانا جاوید اکبر ساقی، پیر اعجاز ہاشمی، جنرل(ر) کے ایم اظہر خان، انجینئر سلیم اللہ خان، صاحبزادہ سید مصطفی اشرف رضوی، مولانا امجد خان، مولانا امیر حسین گیلانی، مولانا رشید لدھیانوی اور مولانا عبدالرء وف فاروقی نے اپنے اپنے بیانات میں مولانا اعظم طارق کے قتل کو ایک گہری سازش قرار دیا۔ مسلم لیگ علماء ونگ پنجاب کے صدر مولانا وجیع اللہ خان نے کہا کہ اسلام دشمن عناصر ملک میں مذہبی دہشت گردی پھیلا کر ملک کا امن و امان تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔
مولانا اعظم طارق کی نمازِ جنازہ کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے سپیکر چوہدری امیر حسین نے کہا کہ اس واردات کے پس منظر میں کئی ممکنات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ کسی ہمسایہ ملک کے ملوث ہونے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ۷/اکتوبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں متفقہ طور پر ایک قرارداد پاس کی گئی۔ جس میں مولانا اعظم طارق کے دن دیہاڑے قتل کو قومی المیہ قرار دیا گیا ار اس امر کا اظہار کیا گیا کہ اس واقعہ میں ملوث دہشت گرد ایک فرد کے قاتل نہیں بلکہ اسلام ، ملک اور قوم کے دشمن ہیں جنہیں بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے۔ وزیراطلاعات شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ وزیراعظم جمالی نے مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ دہشت گردی کی اس واردات کو بہت جلد بے نقاب کر لیا جائیگا۔