کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 11
عالمی سیاست ڈاکٹر ظفر علی راجا مولانا اعظم طارق کا قتل … فرقہ وارانہ انتقام یا عالمی سازش! ۶/اکتوبر ۲۰۰۳ء کو پاکستان کے پُرفضا دارالحکومت اسلام آباد پر اُترنے والی خنک سہ پہر، وطن عزیز میں دہشت گردوں کے حوالے سے ایک اہم باب کے طور پر یاد رکھی جائے گی، یہ پیر کا دن تھا۔ سیاسی اور دینی جماعت ملت ِ اسلامیہ کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے رکن مولانا اعظم طارق اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ جھنگ سے روانہ ہوئے اور اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جب اسلام آباد میں داخل ہوئے تو گولڑہ موڑ کے قریب ٹول پلازا پر ایک پجارو جیپ سے ان کی سرکاری کار پر دہشت گردوں نے گولیاں برسائیں ۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق مولانا اعظم طارق اور ان کے ساتھیوں پر کلاشنکوف کی ۱۰۰ سے زائد گولیاں چلائی گئیں ۔ ان میں سے ۴۰ گولیاں مولانا کے بدن میں پیوست ہوئیں جبکہ باقی گولیوں نے ان کے چاروں ساتھیوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردیے۔ مولانا اعظم طارق ناموسِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام پر عالم وجود میں آنے والی کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سرگرم رہنما تھے۔ اور اپنے موقف میں شدت پسند خیال کئے جاتے تھے۔ اس حوالے سے ان کی زندگی ہمیشہ خطرات سے دوچار رہی۔ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق ان پر ۲۰ مرتبہ قاتلانہ حملے کئے گئے۔ مولانا پر سب سے شدید حملہ ۱۹۹۷ء میں سیشن کورٹ لاہور میں ہوا۔ اس میں ۲۷/افراد جاں بحق ہوگئے لیکن مولانا اعظم طارق زخمی ہونے کے باوجود زندہ بچ رہنے میں کامیاب ہوئے۔ سپاہ صحابہ رضی اللہ عنہم پر پابندی لگنے کے بعد مولانا اعظم طارق نے ۱۸/اپریل ۲۰۰۲ء کو نئی سیاسی جماعت ملت ِاسلامیہ، پاکستان کی بنیاد رکھی اور اس کے سربراہ منتخب ہوئے۔ وہ ایک بار ممبر صوبائی اسمبلی اور تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی کے طور پر ایوان میں پہنچے۔ مولانا اعظم طارق جنرل پرویز مشرف کے زیر صدارت قائم مسلم لیگ (ق) کی موجودہ حکومت کے اتحادی