کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 10
بجائے کبھی اسرائیلی قیادت سے بھی پوچھ لیتے کہ اسے پاکستان سے کیا تکلیف ہے؟
10. جو عاقبت نااندیش اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ’بینڈویگن‘ پر سوار ہوگئے ہیں ، ان کے ذہن میں نجانے اسرائیل کی کون سی جغرافیائی سرحدیں اور حدود اربعہ ہے۔ اسرائیل محض فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ اور ناجائز قبضہ کرنے پر قانع نہیں ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں صیہونی عزائم پرمشتمل ’عظیم تر اسرائیل‘ کا نقشہ آویزاں ہے، اس میں اُردن، مصر، شام اور حجاز کے بعض علاقے بھی شامل ہیں ۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کی عمارت کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں :
’’اے اسرائیل! تیری حد یں نیل سے فرات تک ہیں …‘‘
جو لوگ موجودہ غاصب اسرائیلی ریاست کو ’معروضی حقیقت‘ مان کر اسے تسلیم کرلینے کی بات کرتے ہیں ، کیا وہ (خاکم بدہن) ’عظیم تر اسرائیل‘ کے وجود میں آنے کے بعد اسے ایک ’معروضی حقیقت‘ کے طور پر تسلیم کرلینے کے لئے ابھی سے ذہنی طور پر تیار ہیں ؟ اگر نہیں ، تو اس قدر بے اصولی بات کرتے ہوئے انہیں ضمیر کی معمولی سی خلش بھی کیوں محسوس نہیں ہوتی؟ مردہ ضمیر لوگوں کو ملت ِاسلامیہ کے اہم مسائل پررائے زنی کا کوئی حق نہیں ہے۔
11. اس وقت جب کہ اسرائیل اپنی ریاستی دہشت گردی کی انتہا کو چھو چکا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں دس ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ چکا ہے۔ آئے دن مسلمانوں کی آبادیاں ٹینکوں اور بلڈوزروں سے مسمار کی جارہی ہیں ، جناب یاسر عرفات کے ہیڈ کوارٹر پروحشیانہ بمباری آئے روز کا معمول ہے اور اب تو ظلم و بربریت یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ کھلم کھلا اسرائیل اعلان کرچکا ہے کہ وہ جناب یاسر عرفات کو جان سے مار دے گا یا فلسطین بدر کردے گا۔
ان حالات میں فلسطینی مسلمانوں کی اخلاقی حمایت کی بجائے اُلٹا وحشی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات کرنا کس قدر شقاوتِ قلبی ہے، کتنی انسانیت دشمنی ہے اور اخلاقی اصولوں سے کس قدر سنگین روگردانی ہے۔ اے کاش! یہ افراد اگر مصیبت کے وقت میں مسلمانوں کی مدد نہیں کرسکتے، کم از کم ان کی دل آزاری تو نہ کریں ، ان کے زخموں پر نمک پاشی کا مکروہ فریضہ تو ادا نہ کریں …!! [محمد عطاء اللہ صدیقی]