کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 99
2. پہاڑوں کو میخیں قرار دینا قرآنِ مجید میں کئی ایک مقامات پر یہ بات بیان ہوئی کہ پہاڑ میخوں کی حیثیت سے زمین میں گاڑے گئے ہیں ۔ بطورِ مثال چند آیات درج کی جاتی ہیں : 1. ﴿وَجَعَلْنَا فِيْ الاَرْضِ رَوَاسِیَ أنْ تَمِیْدَ بِھِمْ﴾(الانبیاء:۳۱) ’’اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیے تاکہ وہ (زمین) انہیں (مخلوق کو) لے کر ڈھلک نہ جائیں ۔‘‘ 2. ﴿وَاَلْقٰی فِیْ الاَرْضِ رَوَاسِیَ أنْ تَمِیْدَ بِکُمْ﴾(لقمان:۱۰) ’’اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیئے تاکہ زمین تمہیں ہلا نہ سکے۔‘‘ 3. ﴿اَلَمْ نَجْعَلِ الاَرْضَ مِھَادًا وَّالْجِبَالَ أوْتًادًا﴾(النباء :۶،۷) ’’کیا ایسا نہیں کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح (اس میں ) گاڑ دیا ؟ ‘‘ مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ زمین پر پہاڑوں کو نصب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ زمین ڈھلکنے اور جھٹکے لگنے سے محفوظ رہے۔ اگرچہ نزولِ قرآن سے پہلے دنیا اس حقیقت سے ناواقف تھی، تاہم اب جدید سائنسی تحقیقات نے بھی قرآن مجید کی اس بات کی تائید کردی ہے۔ جدید علم طبقات الارض کے مطابق ’’پہاڑ قشر زمین (Earth's Crust) بنانے والی عظیم پلیٹوں کی حرکت اور ان کی باہمی رگڑ اور مسلسل ٹکراؤ کے نتیجے میں تشکیل پاتے ہیں ۔ جب دو پلیٹیں آپس میں متصادم ہوتی ہیں تو ان میں سے جو مضبوط تر ہوتی ہے، وہ دوسری کے نیچے گھس جاتی ہے اور اوپر والی خم کھا کر بلندی اختیار کرلیتی ہے، اسی طرح پہاڑ وجود میں آجاتا ہے ۔ جبکہ نیچے والی تہہ زمین کے نشیب میں زیریں جانب بڑھتی چلی جاتی ہے اس طرح ایک گہرائی عمل میں آنے لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑوں کا ایک حصہ نیچے کی جانب بھی ہوتا ہے جو سطح زمین سے نظر آنے والے حصہ کے تقریباً مساوی ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر پہاڑ سطح زمین کے نیچے اور اوپر سے آگے کی طرف بڑھتے ہوئے قشر ارض کی پلیٹوں کو آپس میں بھینچ دیتے ہیں جس سے زمین کی مضبوطی بڑھتی ہے۔ مختصر طور پر ہم پہاڑوں کو میخوں سے تشبیہ دے