کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 98
رکھتے ہیں ۔ پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں لاتے ہیں تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو۔‘‘
تخلیقی مراحل کو قرآنِ مجید ہی کے ایک اور مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے :
﴿ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضَغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًَا ثُمَّ أَنْشَأنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰه أحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ (المومنون:۱۳تا۱۴)
’’پھر ہم نے اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا، پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنا دیا پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیوں میں بدل دیا پھر (ان) ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا پھر ایک اور بناوٹ میں اسے پیدا کردیا۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیداکرنے والا ہے۔‘‘
یہی مراحل صحیح احادیث میں اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ نطفہ چالیس دن کے بعد عَلَقَۃ (یعنی گاڑھا خون) بن جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد یہ مُضْغَۃ (یعنی لوتھڑا یا گوشت کی بوٹی) کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ آتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے۔ یعنی چار مہینے کے بعد نفخ روح ہوتا ہے اور بچہ ایک واضح شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے:بخاری: کتاب الانبیااور مسلم: کتاب القدر، وغیرہ)
دورِ حاضر میں تخلیق کے مذکورہ مراحل سائنسی تحقیقات کے بعد متفقہ طور پر تسلیم کئے جاچکے ہیں ۔ جبکہ ۱۴۰۰ سال پہلے جب اسلام نے ان مخفی اُمور کی نشاندہی کی تھی، اس وقت یہ معلومات کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھیں ۔
یہاں راقم بڑے عجز سے عرض کرنا چاہے گا کہ ۱۹۸۷ء میں جب رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے اسلامی یونیورسٹی آف اسلام آباد میں الاعجاز العلمي فی القرآن والسنۃ کے نام سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ’علم الاجنہ‘ سے متعلقہ ایک کتاب "The Developing Human" خصوصی طور پر مندوبین میں تقسیم کی گئی اور اس کانفرنس میں علم الاجنہ اور دیگر سائنسی تحقیقات میں قرآن و سنت کے کردار سے متعلقہ مقالہ جات پیش کئے گئے تو راقم الحروف کے اس موضوع پر دو مقالے منظور ہوئے جبکہ پنجاب بھر سے کسی اور سائنسدان یا عالم دین کا کوئی ایسا مقالہ منظور نہ ہوا۔