کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 97
حاصل ہوئی۔ علم الاجنہ اور علم الطب سے متعلقہ کسی صورت کو زیر بحث لانا یہاں مقصود نہیں ، تاہم علم الاجنہ کے حوالہ سے بیسویں صدی کی ان دریافتوں کی مناسبت سے ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ قرآن و سنت نے چودہ سو سال پہلے ہی ان چیزوں کی نشاندہی کردی تھی۔ مثلاً :
1. قرآن مجید میں ہے کہ
﴿وَأنَّہُ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالاُْ نْثٰی مِنْ نُطْفَۃٍ إذَا تُمْنٰی﴾ (النجم:۴۵،۴۶)
’’اور بلا شبہ اللہ نے جوڑا یعنی نرومادّہ پیدا کیا ایک بوند سے جب کہ وہ ٹپکائی جاتی ہے۔‘‘
اس آیت میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ نر یا مادّہ کی پیدائش کا انحصار نطفہ پر ہے۔ جدید سائنس بھی قرآن مجید کی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ انسانی پیدائش کا عمل نطفے سے شروع ہوتا ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہے کہ
﴿یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّھَاتِکُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمَاتٍ ثَلاَثٍ﴾(الزمر:۶)
’’وہ (اللہ تعالیٰ) تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل پر تخلیق کرتا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ انسانی تخلیق کو رحم مادر میں مختلف مراحل و اطوار سے گزارتا ہے۔ یہ مراحل کتنے اور کون کون سے ہیں ، اس کی تفصیل قرآن مجید نے اس طرح بیان فرمائی:
﴿یٰاَیُّھَا النَّاسُ إنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَۃٍ مُخَلَّقَۃٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ وَنُقِرُّ فِیْ الاَرْحَامِ مَا نَشَآئُ إلٰی أجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّکُمْ﴾(الحج:۵)
’’اے لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اُٹھنے میں شک ہے تو سوچو کہ ہم نے تمہیں مٹی (سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خونِ بستہ سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا اور بے نقشہ ( تھا۔یہ تم پر ظاہر کردیتے ہیں اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں