کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 93
کہ وہ فوجی یا اقتصادی قوت کے بل پرباقی دنیا کو اپنا مطیع کرنے کی کوشش کریں ۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اہل مشرق نے مغرب سے بہت کچھ سیکھا ہے اور شاید اقتصادیات کے میدان میں ہم ان کی کچھ زیادہ ہی پیروی کرنے لگے ہیں ۔ اس لئے اب ضروری ہے کہ اگر ہم اپنی مشکلات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان میں سے بہت سی باتوں کو ترک کرنا ہوگا۔ ملائشیا میں بسنے والوں نے اپنے ہمسائے جاپان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ہم اہل مشرق و مغرب سے وہ سب کچھ سیکھنے کی سعی کرتے ہیں جو ہم میں مثبت تبدیلیاں لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ اب یہ بہترین موقع ہے کہ مغرب اپنے اقتصادی اور معاشرتی اداروں کی مضبوطی کے لئے اہل مشرق کی چند باتیں اپنائیں ۔ جو توجہ ہم خاندان اور کمیونٹی کی بھلائی پر دیتے ہیں ، اس کی آج کے مغرب میں درحقیقت شدید ضرورت ہے کیونکہ وہاں منشیات کے استعمال اور لوٹ مار جیسی اور بہت سی معاشرتی برائیوں نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں ۔ یہ عین ممکن ہے کہ آج جبکہ ہم لوگ چاروں طرف سے اقتصادی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں ۔ امریکی اور مغربی اقوام ہماری اس بات سے اتفاق نہ کریں لیکن اس امکان کو خارج نہیں کیاجاسکتا کہ ہمارا یہ بحران عالمی سطح پر پھیل سکتا ہے۔ اس لئے یہ بہترین وقت ہے کہ ہم سب اپنی تنگ نظری اور بڑے بڑے مالی منافعوں کے خواب سے باہر نکل کر باہمی تعاون کی بابت کچھ کریں ۔ جس سے ہم میں ایک دوسرے سے سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی عزت کرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوگا۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے کہ ایشیائی اقدار، ایشیائی اقدار ہیں جبکہ مغربی اقدار مغربی اقدار ہیں ۔ لیکن پھر بھی کپلنگ کے خیالات کے برعکس دونوں یکجا ہوسکتی ہیں اور ان کے ملاپ سے ایک نیا باہمی اعتماد پیدا ہوگا۔ جس میں ایک دوسرے کی شعوری بلندی کی قدر کی جائے گی اور جو کہ ایک ایسی اُمید کو جنم دے گی جس میں برائی کو ترک کرکے اچھائی کو اپناکر ہی حوصلہ پیدا ہوگا !! بشکریہ [جمہوری پبلی کیشنز ، لاہور]