کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 92
مغربی اقدار میں آنے والی ان تبدیلیوں نے واضح طور پر قائم شدہ معاشرتی اداروں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں جس سے شادی بیاہ، خاندان، بزرگوں کی عزت اوراہم رسم و رواج تخت و تاراج ہوکر رہ گئے ہیں ۔ ان نئی اقدار نے ان تمام باتوں کی نفی کر ڈالی ہے جن کا تعلق روحانی یقین اور معاشرتی زندگی سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مغربی معاشرہ سنگل پیرنٹ فیملی، ہم جنس پرستی، بغیر شادی کے اکٹھے رہنے اور بزرگوں کی عزت نہ کرنے جیسی علتوں کا شکار ہوچکا ہے۔ چند ایک معاشروں کا تو یہ عالم ہے کہ وہاں جائز بچوں کی نسبت ناجائز بچے زیادہ ہیں اور بہت سے ممالک میں ۳۰ سے ۴۰ سال کی عمر کے لوگوں کی ایسی کثیر تعداد موجود ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی میں کوئی باقاعدہ نوکری نہیں کی ہے اورنہ ہی انہیں ایسی کسی نوکری کی خواہش ہے کیونکہ ایک بے روز گار شخص خود کو صاحب ِروزگار سے بہتر محسوس کرتا ہے۔ ایسے حالات میں رہنے والے لوگ روحانی پستی کا شکار ہیں اور انہیں کوئی ایسی صورت نہیں دکھائی دیتی کہ جہاں سے وہ رہنمائی پاسکیں ۔ ان کی مثال کسی اُکھڑے ہوئے درخت یا بھٹکے ہوئے راہی کی ہے یا ایسے تنکے کی ہے جو کہ تند سمندر کی بے رحم لہروں کے رحم و کرم پر ہو۔ اس معاشی نظام کے اہم ستون شاید سٹاک مارکیٹ، اقتصادی ترقی کا تسلسل اور مادّی خوشحالی ہیں ۔ اگر کبھی ایسا ہوا کہ سٹاک مارکیٹ میں کوئی بڑا مندا پڑا جس سے کسی اقتصادی بحران کا آغاز ہوا تو مغربی معاشرتی نظام میں کوئی ایسی گنجائش نہ ہوگی کہ وہ بگڑتے ہوئے حالات پرقابو پاسکیں ۔ ایشیائی، کبھی بھی مغرب کی ایسی پیروی نہ کرنا چاہیں گے، بے شک مغرب کسی ایسے بحران کا شکار ہو یا نہ ہو۔ ہم ایشیائی روایات کو کبھی بھی مغربی ہیڈونزم (Headonism) پر قربان نہ ہونے دیں گے۔ جب ہم مستقبل کے کسی نظامِ اقدارکے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم اس کی بنیادیں باہمی تعلقات کی مضبوطی اورعزت پر رکھنے کے خواہش مند ہیں ۔ ہم اس سے نئے خیالات کی گنجائش بھی رکھنا چاہیں گے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایسے خیالات ہمیشہ ہی گمراہ کن یا باطل ہی ہوں ۔مغرب کو پوراپورا حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی راہ چلیں مگر انہیں یہ حق ہر گز نہیں دیا جاسکتا