کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 91
نہ ہوگا بلکہ ہمیں ایسی اقدار کو فروغ دینا ہوگا جس سے سرمایہ داروں کی قلیل جماعت اپنے انفرادی مفاد کے لئے کروڑوں لوگوں کی تقدیر سے نہ کھیل سکے۔ بنیادی ایشیائی اقدار جن کا ذکر اوپر کی سطور میں کیا گیا ہے۔ ان کاتعلق ہمارے موجودہ اقتصادی بحران کی اصل وجوہات سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ لہٰذا یہ ایک بے بنیاد بات ہے کہ ایشیائی بحران درحقیقت ان کی اَقداری خرابیوں کا شاخسانہ ہے۔ اگر کہیں خرابی پائی جاتی ہے تو وہ خالص منافع کی بنیاد پر استوار ان شدید مادّہ پرست اقدار میں ہے جوگلوبل فنانشل سسٹم کی اساس ہیں ، جنہیں مغرب نے مرتب کیا ہے۔ خاندان اور کمیونٹی کی جانب ایشیائی لوگوں کا جھکاؤ، اربابِ اختیار کی تعظیم، سخت محنت اور معاشرتی بھلائی کے لئے انفرادی قربانی جیسے اوصاف ہی یقینا آج کے برے حالات میں ہمیں حوصلہ اور ہمت فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ اس لئے آج ایشیا کو بہت پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خاندان اور کمیونٹی کی امداد پر زور دینا چاہئے کیونکہ اگر ہم ان مشکلات سے جلد باہر آنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ سخت محنت کرنا ہوگی جس کے ساتھ ساتھ انفرادی مفادات کو کمیونٹی یا گروہ کے مفادات پر قربان کرنا پڑے گا تاکہ وہ تمام فرائض جو کسی بھی فرد پر اس کی کمیونٹی کے حوالے سے فرض ہیں بہتر انداز میں سرانجام پائیں ۔ مستقبل کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ بھی واضح دکھائی دے رہا ہے کہ چند ایشیائی اقدار کی یا تو ہمیں اصلاح کرنا ہوگی اور یا انہیں مکمل طور پر ترک کرنا ہوگا مگر اس کے ساتھ چند ایک ایسی باتیں بھی ہیں جن سے جڑے رہنے ہی میں ہماری بقا ہے۔ ہمیں ان معاشرتی اداروں کو بھی بکھرنے سے بچانا ہوگاجن کا انحطاط مغرب میں معاشرتی تعاون کا باعث بنا۔ اگرچہ زیادہ تر مغربی اَقوام عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہیں لیکن گذشتہ چند دہائیوں کے اندر عوامی زندگی میں مذہب کا عمل دخل محدود ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ انہوں نے سیکولر زندگی کے نام پر مذہب کی بلی چڑھا دی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ لوگ اپنی خواہشات کے اندھے غلام بنتے چلے جارہے ہیں ۔ مادّہ پرستی، خود غرضی اورانفرادیت کابھوت مغربی معاشروں کا قومی نشان بن چکا ہے جس سے کمیونٹی کی جگہ انفرادی خواہشات نے لے لی ہے۔