کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 90
شدید مادّہ پرستی کا شکار ہوچکے ہیں اور دوسری طرف ایسے ممالک ہیں جو مادّہ بیزاری میں گھرے ہوئے ہیں ۔ ایسے علاقوں میں روحانیت کو انتہائی درجہ حاصل ہے جبکہ تشدد اور ناانصافی روز مرہ کا معمول ہے۔ چند ایشیائی معاشرے فیٹلزم(Fatalism) کی اخلاقیات کے آگے بے بس دکھائی دیتے ہیں جبکہ دوسرے بیرونی غلبے اور قناعت پسندی کی اَقدار کے سامنے۔ ایشیا میں آج بھی بہت سی جگہوں پر عورتوں اور بچوں سے سخت جسمانی مشقت لی جاتی ہے۔ ایسے معاشرے مخلوقِ خدا کی محبت کے جذبے سے عاری ہیں ۔ ایشیا کو ابھی ترقی کی راہ پر چلنے کے لئے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ بہت سی ایسی اچھی مغربی اقدار ہیں جوکہ ہمیں مستقبل میں اپنانا ہوں گی۔
اہم نکتہ جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایشیائی اقدار پیدائشی طور پر نہ تو اچھی ہیں اورنہ ہی بری جبکہ ہمارے موجودہ بحران سے اچانک اس خیال کو ہوا ملی ہے کہ ضرور ایشیائی اقدار میں کوئی مسئلہ رہا ہوگا جس کے اصل ولن ’کرونی ازم‘ اور بدعنوانی ہیں ۔ اس سلسلے میں مغربی پنڈتوں اور حکومتوں نے بحران کے پہلے سال میں یہ کہنا شروع کیا کہ اگر ایشیائی اپنی ان بری اَقدار سے پیچھا چھڑا لیں اور وہ خود کوباقی دنیا کے لئے کھول دیں اور اپنے ہاں وسیع تر آزادی کی اجازت دیں تو وہ اپنے ان مسائل کو دنوں میں حل کرسکتے ہیں ۔
ایشیائی بحران سے مغرب کے مقدس اَقدار کے نظام میں باہم متضاد خیالات کا پردہ بھی چاک ہوا ہے جو خود کو فری مارکیٹ کیپٹلزم کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ ان باہم متضاد خیالات ونظریات پر اب پہلے سے کہیں زیادہ سنجیدگی سے بحث ہونی چاہئے چونکہ وہ تمام نسخے جو ہمارے بحران کی طرز کے مسائل کے حل کے لئے پیش کئے جاتے ہیں ، ان کی زبردست ناکامی کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان پر از سر نو غوروفکر کیا جائے۔ اس کا اندازہ جاپان سے لے کر یورپ تک کے لیڈروں کے ان بیانات سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے ۱۹۹۸ء کے موسم خزاں میں دیئے۔ برطانوی پرائم منسٹر ٹونی بلیر، جرمنی کے چانسلر شروڈر، جاپانی وزیر اقتصادیات اور ایسے ہی بہت سے لوگوں نے کرنسی اورسرمائے کی آزاد حرکت پرپابندیاں عائد کرنے کی تجاویز پیش کیں ۔ بے شک ایسے اقدامات آج کی ضرورت ہیں صرف اتنا ہی کافی