کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 89
امریکیوں نے اس سے اتفاق کیا۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ یہ سروے کس حد تک سچائی کے قریب ہے مگر اس سے ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مختلف اہم موضوعات کے بارے میں ایشیائی لوگوں کی کیا رائے ہے اور یقینا ان کی رائے اس سے بہت مختلف ہے جو مغربی دنیا نے ان کے بارے میں قائم کررکھی ہے۔ میں اس سے انکار نہیں کرنا چاہتا کہ بہت سی ایشیائی اَقدار وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی چلی جارہی ہیں اور یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ جس میں بہت سی ایسی باتیں ، چاہے وہ ہمارے حق میں ہیں یا نہیں ، ہمیں ترک کرنا ہوں گی کیونکہ ترقی ہمیشہ یہی تقاضا کیا کرتی ہے !! ایک اور دلچسپ بات جو اس سروے سے ہمارے سامنے آتی ہے کہ بہت سی ایسی اقدار ہیں جو کچھ عرصہ قبل تک مغربی معاشروں کا حصہ تھیں ۔ اس میں سے اکثر اقدار جیسا کہ صاحب اختیار کی عزت، خاندان اور انفرادی تنظیم، وکٹورین اَقدار تھیں ۔ یہ وہ خیالات ہیں جو مغرب نے وقت گزرنے کے ساتھ ترک کردیے ہیں ۔ ایشیائی اقدار کا مستقبل میں بھروسے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایشیائی اقدار کے بارے میں میری رائے سے مراد ڈکٹیٹر شپ کی وکالت، مطلق العنانیت، غیر جمہوری رویے، انسانی حقوق کی پامالی، تشدد، چائلڈ لیبر، عورتوں کے حقوق کی پامالی یا ماحول کی آلودگی کی حمایت کرنا نہیں ہے بلکہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مستقبل میں انسانی حقوق بلکہ انسانیت پر مبنی اَقدار نہ صرف ایشیا بلکہ تمام کرۂ ارض میں پروان چڑھیں گی۔ یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی ایشیا کوباقی دنیا سے بہت کچھ سیکھنا ہے تو یہ عین ممکن ہے کہ ایسی صورتِ حال میں بہت سی ایشیائی اَقدار میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی یا وہ سرے سے ختم ہوجائیں گی۔ ماضی میں ہم نے اپنی چند بری اَقدار سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے شدید جدوجہد کی ہے۔ ایشیا میں صورتِ حال یہ ہے کہ ایک طرف توبہت سے ایشیائی ممالک