کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 87
کہ وہ اپنے سینما میں جس طرح کی چاہے، فلمیں چلا سکتا ہے۔ اس طرح ایک کمیونٹی کو اپنے بچوں کو غیر اخلاقی فلموں کے شر سے محفوظ رکھنے کے حق سے محروم کردیا گیا !! اس قسم کی مثالوں پر غور کرنے سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ فردِ واحد کی انفرادی آزادی کے حق کو جب اس درجہ جگہ دے دی جائے تووہ کس انداز میں ایک بہت بڑے گروہ کے مشترکہ حقوق کو پامال کرسکتا ہے جو کسی بھی معاشرہ میں ناانصافی اور ناجائز معاشرتی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ یہاں تک کہ مغرب میں بھی آزادی کی حدود طے کی گئی ہیں ۔ کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے کے افراد کو اچھی طرح سے ان حدود کا علم ہونا چاہئے۔ اگر کمپیوٹر کی مثال پر غور کیا جائے جو کہ تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے، اِسے فحش مواد کی ترسیل کا ذریعہ بنا لیا جائے تو یہ نوجوان نسل کو اخلاقی طور پر تباہ کرسکتا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات کسی بھی صحت مند سوسائٹی کو قابل قبول نہیں ہوگی۔ ملائشیا میں ہمیشہ ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ کاروباری طریقہ کار اور اس میں موجود تخلیقی گنجائشوں کو زبردستی ملائیشین اَقدار سے بھرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے فرد کی انفرادی آزادی پر گہری چوٹ پڑتی ہے جس سے کمیونٹی کے حقوق غیر ضروری حد تک فرد کی آزادی سے تجاوز کرجاتے ہیں ۔ اسکے برعکس میں اس حقیقت سے بہت اچھی طرح آشنا ہوں کہ ہمارے اقدار کے نظام نے ہی ہماری سوسائٹی کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایشیائی اور امریکی اَقدار کا تقابلی جائزہ ڈیوڈ ہچکوک (David Hitchcock) امریکی انفارمیشن ایجنسی کے شعبہ ایسٹ ایشین اینڈ پیسفک افیرز کے ڈائریکٹر ہیں ۔ انہوں نے امریکی اور ایشیائی اقدار کے فرق کو جانچنے کے لئے ایک سروے کیا۔ یہ سروے ہچکوک نے ۱۹۹۴ء میں کیا۔ اس سروے کا سوال نامہ کچھ اس طرح سے تھا کہ امریکی اور مشرقی ایشیائی لوگ ایسی پانچ ذاتی اور معاشرتی اقدار کا چناؤ کریں جو ان کی زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اس سروے کے نتائج کو ایک کتاب کی صورت میں مرتب کیا گیا۔ جس کا نام Asian values and the United states: How