کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 85
میں یہ بڑی اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرے یہ خیالات مغرب میں پائے جانے والی روایات کے منافی ہیں کیونکہ وہاں پبلشر حضرات اکثر یہ کہتے ہیں کہ ان کی خبروں کے نتیجے میں جوکچھ بھی ہوا، اس کے وہ ذمہ دار نہیں ہیں ۔ یہ سب اس لئے چھاپتے ہیں کہ لوگ یہ سب جاننا چاہتے ہیں ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ کیا جاننا چاہتے ہیں ؟ کیا لوگ کوئی ایسی بات جاننا چاہتے ہیں جس کو جان لینے کے بعد وہ تمام لوگوں سے کشیدہ خاطر ہوجائیں ۔ جن کے ساتھ وہ ایک لمبے عرصے سے ایک پُرامن فضا میں رہ رہے ہیں ۔ میں تو ایسے علم پر جو ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنادے، جہالت کو ترجیح دوں گا۔ بے شک اوپرجو مثال میں نے دی ہے۔ وہ انتہائی درجے کی ہے لیکن میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ بے لگام صحافت کس حد تک مسائل کو پیچیدہ کرسکتی ہے اور اس سے معاشرہ میں مختلف سطح پر بسنے والے لوگوں کے درمیان پائے جانے والے حقوق و فرائض پر ایک طویل اور لاحاصل بحث کا آغاز ہوتا ہے۔ 4.آزاد اور تخلیقی صلاحیت: امریکی خاص طور پر امن و استحکام کے داعی ہیں کہ مکمل آزادی، اِفرادی قوت میں تخلیقی صلاحیت اور ذہانت کو اُبھارنے میں اہم کردار اداکرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایسے ممالک پر نظر ڈالی جائے جہاں بڑے پیمانے پر آزادی پائی جاتی ہے جیسا کہ امریکہ میں (مائکروسافٹ کمپنی کا مالک) بل گیٹس جیسے افراد دکھائی دیتے ہیں یا بلندپایہ عالم، موسیقار، کمپوزر اور بے شمار ایسے لوگ جنہیں نوبل پرائز سے نوازا گیا ہے جو کہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس طرز کی آزادی میں اس قسم کے لوگوں کا فقدان ہوتا ہے جیساکہ جاپان، چین اور دیگر ایشیائی ممالک میں ایسے باصلاحیت لوگ کم پیدا ہوتے ہیں ۔ اس دلیل کو ایک معیار کے طور پر پیش کیا جاتاہے۔ بے شک کہ یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن یہاں ایک اہم تقاضے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ آزادی کی اصل اَساس کیا ہوتی ہے؟ کسی بھی ملک کی کاروباری فضا کے لئے آزادی ایک بنیادی شرط ہوتی ہے تو پھر کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ اس آزادی کی بھی حدود طے کی جانی چاہئیں ؟ اس کے علاوہ فرد کی انفرادی آزادی سے کیا ہمیں یہ مراد لینا چاہئے کہ جو اس کے من