کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 84
میں ایسے دو لیڈر مارٹن لوتھرکنگ جونیئر جو کہ امریکہ میں ’سول رائیٹس موومنٹ‘ کا بانی تھا اور مہاتما گاندھی کی صورت میں نظر آتی ہیں ۔ گاندھی نے قابل ستائش انداز میں عدمِ تشدد کی بنیاد پر سول نافرمانی کے طریقہ کار پرعمل کرتے ہوئے یہ بات ثابت کی کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے خلاف کس طرح ایک مؤثر جنگ لڑی جاسکتی ہے۔ اس بات سے مجھے اپنا طالب علمی کا وہ زمانہ یاد آجاتا ہے جب میں اور میرے ساتھی جس انداز میں دوسری جنگ ِعظیم کے دوران برٹش سامراج کے ملائین یونین پلان کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ 3.آزادی:جب کبھی بھی مشرقی اور مغربی اقدار کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو لفظ ’آزادی‘ کی تشریح اور خاص طور پر آزادیٔ صحافت کے سوال پر ایک بالکل نئی بحث کا آغاز ہوتا ہے ۔ مجھے عام طور پر آزادیٔ صحافت کا مخالف کہا جاتا ہے یا مجھے آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ تحریر وتقریر سے منحرف شخص کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ اُصولی طور پر میں آزادیٔ صحافت کا قائل ہوں ، لیکن اس وقت کیا کیا جانا چاہئے جب کسی صحافی کی آزادیٔ تحریرسے بہت سے لوگوں کے حقوق مجروح ہورہے ہوں ؟ اگر کوئی شخص کوئی ایسی بات چھاپ دے جس کا خمیازہ لاکھوں لوگوں کو بھگتنا پڑے اور اگر یہی آزادی صحافت تفرقہ بازی اور نفرت کو ہوا دینے لگے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسی صورت میں اس انداز کی آزادی صحافت کو ضرور لگام دینی چاہئے۔ میں آزادیٔ صحافت سے اتفاق کرتا ہوں لیکن اس وقت جب تک یہ دوستوں کی آزادی، عزت یا مال کے لئے کوئی خطرہ نہ پیدا کررہی ہو۔ مثال کے طور پرملائشیا ایک ایسا ملک ہے۔جہاں بہت سی نسلوں کے لوگ آباد ہیں تو یہ بڑی آسان بات ہے کہ یہاں نسلی امتیاز کو ہوا دے کر نسلی فسادات شروع کروا دیے جائیں ۔ درحقیقت مغربی ذرائع ابلاغ ہمارے خلاف ایسے ہی حربے استعمال کرتے رہے ہیں ۔ اگر ایسی رپورٹنگ کی جائے جس کی بنیاد ناقص معلومات پر ہو تو کسی بھی کمیونٹی میں شدید کشیدگی پیدا کی جاسکتی ہے اور پھر اگر ایسی کسی صورت حال میں فسادات شرو ع ہوجائیں تو کوئی بھی خوشحال سوسائٹی دنوں میں بدحال ہوسکتی ہے کیونکہ ایسی صورتِ حال میں کاروبار ٹھپ ہوجاتے ہیں جس سے لوگوں کے روزگار کو شدید دھچکا لگتا ہے تو پھر ایسی آزادیٔ صحافت کو مخصوص حدود میں رکھنا کوئی بے جا بات نہیں لگتی۔