کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 83
کا استعارہ ایک خوبصورت مثال ہے۔ میں یہاں اس بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ کسی بھی بچے پر اپنے والدین کی تعظیم فرض ہوتی ہے مگر ایسا ہر صورت میں نہیں کیاجاسکتا۔ جس سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے کہ طاقت اور اختیارات کا ناجائز استعمال کسی بھی حالت یا صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ ایسی بہت سی مثالیں ہمارے مشاہدے میں آتی ہیں کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں یہاں تک کہ ان پر جنسی تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
طاقت یا اختیار کا ایسا استعمال کسی بھی انداز سے درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر اختیارات ایک دو طرفہ ٹریفک کا نام ہے۔ جس میں ایک طرف لیڈر اور اس کی ٹیم جبکہ دوسری طرف ریاست کے شہری اس انداز میں چلتے ہیں کہ دونوں اطراف کے حقوق و فرائض میں ایک صحت مند توازن قائم رہے۔
اب یہاں قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگاکہ اچھے اور برے اختیارات میں کس طور تمیز کی جاسکتی ہے۔ میرے خیال میں عام طور پرشہری بڑی آسانی سے یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ حکمران کس انداز میں اختیارات کااستعمال کررہے ہیں کیونکہ کوئی بھی ایسی حکومت جو اپنے پروگرام کے مطابق کام کرتے ہوئے لوگوں کے لئے خوشحالی کے مواقع پیدا کررہی ہو اور عام طور پر عوام سے بدسلوکی روا نہ رکھے تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ حکومت اپنے اختیارات اچھے طریقے سے استعمال کررہی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی حکومت بدعنوان ہوگی تو یقینا اس کا طرزِ حکومت غیر مؤثر ہوگا اور وہ اپنے شہریوں پرناجائز دباؤ ڈالے گی تو وہ جان لیں گے کہ اختیارات ان کے خلاف استعمال کئے جارہے ہیں اور یوں ایسی حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کی راہ ہموار ہوتی چلی جائے گی۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ کوئی بھی اختیارات کی غیر مشروط اطاعت نہیں کیا کرتا۔ اس لئے اختیارات کو مؤثر بنانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان میں ایسی خصوصیات پیدا کی جائیں جو لوگوں کے لئے دلکشی کا باعث ہوں ۔
تاریخ میں ایسے واقعات جابجا ملتے ہیں جہاں کہیں بھی اختیارات کو عوام الناس کے خلاف استعمال کیا گیا، وہاں ایسے عوامی لیڈر پیدا ہوئے جنہوں نے لوگوں میں سول نافرمانی کے ذریعے ان اختیارات کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کا شعور بیدار کیا۔ گذشتہ ایک صدی