کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 82
خصوصیات کی بنا پر ہی وہ ’ایشیائی‘ کہلاتے ہیں جس طرح کہ مغرب کے لئے ویسٹرن(Western) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
1. فرد کی بجائے ’اجتماع‘ کو برتری: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایشیائی اقدار میں بنیادی اہمیت بالترتیب خاندان اور کمیونٹی کوحاصل ہے۔ ہم لوگ زیادہ زور کسی خاندان یا کمیونٹی کے حقوق کی پاسداری پر دیتے ہیں ۔ کبھی بھی فردِ واحد کے حقوق کو خاندان یا کمیونٹی کے حقوق پر ترجیح نہیں دی جاتی۔ ہم اس بات کو یوں لیتے ہیں کہ فردِ واحد کے ذمہ پہلے وہ فرائض ہوتے ہیں جو کہ اس پر کمیونٹی یا خاندان کی طرف سے واجب الادا ہیں ۔ اس کے بعد اس کے حقوق آتے ہیں جو کہ قدرتی طور پر اس وقت اُسے ملنے لگتے ہیں جب وہ اپنے فرائض ادا کرنے لگتا ہے۔ جبکہ مغرب میں فرد کے حقوق کو ہر چیز پر ترجیح دی جاتی ہے۔
2.بااختیار کی اطاعت: اس کے بعد ایشیائی اقدار میں بااختیار کی اطاعت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بااختیار سے ہماری مراد سوسائٹی کو متوازن رکھنے کی ضمانت سے ہے۔ کیونکہ اختیار کے توازن کی عدم موجودگی میں اختیار کی تعظیم پر یقین نہ رکھا جائے تو چاہے مغربی معاشروں کی طرح فردِ واحد کے حقوق کا جتنا بھی واویلا کیا جاتا رہے، ایسا معاشرہ بدنظمی کا شکار ہوجاتا ہے ۔
اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ ہر قسم کے اختیار کو ہمیشہ تسلیم کرلیا جاناچاہئے اور نہ ہی یہاں اس سے میری مراد ڈکٹیٹر شپ سے ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہکرؔ اور پول پوٹ جیسے مطلق العنان حکمرانوں کے پاس بے حد اختیارات تھے جبکہ ایسے اختیارات ہمیشہ عوام الناس کے لئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ایسی حکومتیں خوف و ہراس اور اندھی تقلید کی بنیاد پر چلائی جاتی ہیں ۔ میں جمہوریت پر پختہ یقین رکھتا ہوں ، کیونکہ جمہوریت ہی ایسا طریقہ کار ہے، جس کے ذریعے بغیر کشت و خون کے اقتدار میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔اسی لئے کسی بھی عظیم تر جمہوری معاشرہ کے شہریوں کو ریاست کی حکومت کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی فردِ واحد کے حقوق اور سوسائٹی کی جانب واجب الادا فرائض کے درمیان پائے جانے والے صحت مند توازن کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اختیار کے کردار اور اس کے ناجائز استعمال کو جاننے کے لئے بچے اور والدین کے رشتے