کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 81
سامراجی دور میں ایشیائی لوگوں کو شدت سے یہ احساس دلایا گیا کہ ان کی معاشرتی اقدار اور طریقہ کار مغرب کے مقابلہ میں نہایت پست ہیں مگر اس کے برعکس ایشیائی ترقی نے ہمیں اس احساس کا اِدراک دیا کہ ہماری قدریں مغرب کے مقابلے میں کسی طرح بھی کم نہیں ہیں بلکہ چند ایک مخصوص صورتوں میں تو ہمیں ان پرسبقت بھی حاصل ہے۔ اسی انداز میں سوچتے ہوئے جب سے ایشیائی لوگوں نے ذہنی غلامی کا طوق اُتارا ہے، تب سے ہی وہ قدرتی طور پر مغربی خیالات کے خلاف زیادہ مدافعت کرنے لگے ہیں ۔
اب تو یہاں تک صورتحال پہنچ چکی ہے کہ ہم میں سے چند ایک تو مغرب کو منہ توڑ جواب بھی دینے لگے ہیں اور ان کے اس فعل کے پیچھے یہ استدلال ہوتا ہے کہ ایشیائی اقدار مغربی اقدار سے بہتر اور زیادہ مؤثر ہیں ۔ شاید ہماری اس ذہنی تبدیلی نے مغرب میں پہلے سے کہیں زیادہ اضطراب پیدا کردیا ہے لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ یہ ایک مثبت بحث کا آغاز ہے۔ جس کا ہم سب کو بڑی مدت سے انتظار تھا جو کہ ایشیا میں آنے والے اس عارضی بحران سے نہیں دَب سکتی۔ جبکہ اس کے برعکس آج کے حالات یہ تقاضا کرنے لگے ہیں کہ ہم کل کی نسبت زیادہ بھرپور انداز میں اخلاقی اور انسانی اقدار کا آج کے کیپٹل سسٹم کی خالص معاشی اور مادّی اقدار سے تقابلی جائزہ لیں ۔
ایشیائی اقدار کا نظام کس ضابطہ حیات کی حمایت کرتا ہے؟
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ وہ کون سی ایشیائی اقدار ہیں جو مغرب میں ایک بڑی بحث کے آغاز کا باعث بنیں ؟ ایشیا امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں کہیں بڑا براعظم ہے اور ہمارے ہاں پائی جانے والے بہت سے عمومی خیالات اپنے اندر ایک خاص طرز کی خصوصیت رکھتے ہیں ۔ جس کے ساتھ ہی مختلف ایشیائی اقوام اپنا اپنا خاص اور تاریخی اور مذہبی منظر رکھتی ہیں ۔ ملائشیا ایک اسلامی ملک ہے۔ جاپان اور ساؤتھ کوریا میں زیادہ تر لوگ کنفیوشس(Confucian) ہیں یا شنٹو(Shinto) اور بدھ جبکہ تھائی لینڈ میں ہیایانا بدھ (Hiayana Bodh)۔ اس قسم کے واضح فرق کے باوجود ایشیائی لوگوں میں بہت سی مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ان مشترکہ