کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 80
میرے ان خیالات کو ایک نئے انداز کی خطرناک ایشیائی جارحیت اور خودپسندی کا نام دیا گیا۔
مغرب میں بسنے والے بہت سے لوگوں کے خیال میں مغربی اَقدار کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیادی شرط ہیں ۔ مغرب میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ایشیائی اقدار کے چمپئن اپنے استبداد، ڈکٹیٹر شپ اور دیگر غیر جمہوری رویوں کو ’ایشیائی اقدار‘ کے نام پر درست ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ اس تعصب کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ اور لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا میں صرف اَقدار کا ایک ہی مؤثر نظام موجود ہے جوکہ مغربی اقدار کا نظام ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور وہاں کے صاحب رائے لیڈر شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا میں بہت سے مختلف نظام ہائے اَقدار پہلو بہ پہلو باہمی بھائی چارے کی فضا میں زندہ رہ سکتے ہیں ۔
آج (ملائشیا کے) معاشی بحران کے بعد ایشیائی ترقی کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے، تو ایسی صورتِ حال میں اس انداز میں سوچنے والے لوگوں کے لئے ایک انجانی خوشی کا باعث ہوسکتا ہے کیونکہ ایشیائی اقدار نے ان کے لئے جو ممکنہ خطرات پیدا کررکھے تھے، وہ اس بحران کے ریلے کی نذر ہوچکے ہیں ۔ میں اس انجانی خوشی کی بازگشت محسوس کررہا ہوں ۔
میں نے کبھی بھی اس خیال کو ہوا نہیں دی کہ دنیا میں صرف ہمارے پاس ہی بہتر اقدار کا نظام ہے اور نہ ہی اس خیال کی ترویج کی ہے کہ ایشیائی اقدار باقی دنیا میں پائی جانے والی تمام اقدار کو زیر کرلیں گی۔ میں جب ایشیائی اقدار کی وکالت کرتا ہوں تو اس سے میری مراد ہر گز یہ نہیں ہوتی کہ مغربی اقدار برائیوں کا منبع ہیں ۔ ان کی حیثیت اپنے ماحول میں مسلمہ ہے کیونکہ ہم سب لوگ ایک پیچیدہ دنیا کا حصہ ہیں ۔ میں اس حقیقت سے ہرگز گریزاں نہیں ہوں کہ چند ایک انفرادی اَقدار ایسی ضرور ہوتی ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے کا بنیادی اور لازمی جزو ہوتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی چند ایک قدرتی تفرقات بھی پائے جاتے ہیں جو دراصل کسی بھی سوسائٹی کی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہیں ۔ یہ وہ لفظ ہے، جس پر ہمیں تنگ نظری سے نہیں سوچنا چاہئے کیونکہ بہت سی ایسی اقدار اَقوام عالم میں پائی جاتی ہیں جوکہ بے شک مغربی اقدار سے کسی بھی سطح پرکوئی تال میل نہیں رکھتیں مگر پھر بھی اپنے انفرادی معاشروں کے لحاظ سے ان کی ایک خاص اہمیت بنتی ہے۔