کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 71
البتہ اگر مال چوری یا غصب کے ذریعے حاصل کیا گیا ہو، اور یہ بھی معلوم ہو کہ اس کا اصل مالک فلاں ہے تو اسے کھانا کسی کے لئے حلال نہیں ۔ اس کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مالک کو واپس کیا جائے۔اور جو شخص اس میں مدد کرسکتا ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ مال کی واپسی میں ممکن حد تک تعاون کرے۔ واللّٰه أعلم حرام کمائی والے شخص کا صدقہ قبول کرنا؟ ٭ سوال ۱۷: کیا اسلامی مراکز و مدارس اس آدمی سے چندہ وصول کرسکتے ہیں جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ شراب یا خنزیر فروخت کرتا ہے؟ کیا امام یا مسجد کی انتظامیہ کے لئے اس سے چندہ مانگنا جائز ہے؟ جواب:شراب اور خنزیر کی خرید و فروخت کے قطعی حرام ہونے پر اجماع ہے۔اس گناہ کا ارتکاب کرنے والا بالاتفاق ظالم اور گنہگار ہے۔ اس کے قرب و جوار کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اسے نصیحت کریں اور اس قدر ڈانٹ ڈپٹ کریں ، اسے طریقے طریقے سے توجہ دلائیں کہ وہ اس حرکت سے باز آجائے۔ اس کے لئے یہ طریقہ بھی اختیار کیاجاسکتا ہے کہ اس کو اہمیت نہ دی جائے اور اس کاصدقہ قبول نہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے منعقد کیے جانے والے اجلاس میں اسے مدعو نہ کیاجائے۔ بلکہ اس وقت تو یہ صورت اختیار کرناضروری ہوجاتی ہے جب اس کے غلط کام سے اعلانِ براء ت، اور اس کے حرام ہونے کو پرزور طور پر واضح کرنے کا یہی مناسب طریقہ ہو۔ یااس سے نرمی کرنے سے خطرہ ہوکہ وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجائے گا کہ صدقہ دے کر اس کا حرام کاموں کے ارتکاب کا گناہ معاف ہوجاتا ہے۔جیسے مسلمان ملکوں میں رقص و سرود سے روزی کمانے والی بعض عورتیں ماہِ رمضان میں اجتماعی افطاری کا بندوبست کرکے یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ اس طرح وہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوگئی ہیں ، اگرچہ آئندہ کے لئے وہ اسی گناہ کوجاری رکھنے کا پختہ اِرادہ رکھتی ہوں ۔ یا یہ خطرہ ہو کہ بعض عوام یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ اس طرح ان کے لئے (گناہ پر قائم رہنے کی )گنجائش پیدا ہوسکتی ہے، یا یہ سمجھیں گے کہ ان کاموں سے منع نہیں کرنا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدعت