کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 68
اِسقاط میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ لیکن اگر وہ گناہ کے راستے پر بدستور رواں دواں ہے، پھر اسے اس کے حق میں یہ فتویٰ جاری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے لئے نئے گناہ کے ارتکاب کا راستہ کھل جائے گا، کیونکہ اسے رسوائی سے بچنے کاطریقہ معلوم ہوچکا ہے۔ البتہ توبہ کرنے والے کے لئے قبولیت کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے کہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے، اور دن کو ہاتھ بڑھاتا ہے کہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے۔ وہ کسی کو اپنی رحمت سے مایوس نہیں کرتا، نہ کسی کے لئے توبہ کا دروازہ بند کرتاہے۔ اللہ نے شرک، قتل اور زنا جیسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ لاَ َیدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ إِلٰھًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰه إِلاَّ ِبالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذلِکَ یَلْقَ أَثَامًا یُّضَاعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُہَانًا إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰه سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَانَ اللّٰه غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ (الفرقان:۶۸ تا۷۰)
’’اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے، اور کسی ایسے شخص کو ناحق قتل نہیں کرتے، جسے قتل کرنا اللہ نے منع کردیا ہو، نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ، اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا۔ اسے قیامت کے دن دہرا عذاب دیا جائے گا، اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا۔ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں ، اور ایمان لائیں ، اورنیک کام کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘
٭ باقی رہا بچے کا مسئلہ، تو بچہ ان مردوں میں سے کسی کی طرف منسوب نہیں ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الولد للفراش وللعاھر الحجر)) ’’بچہ بستر والے کا ہے اور زانی کیلئے پتھر ہیں ۔‘‘ نیز نسب ایک نعمت ہے، اور نعمت گناہ کے ذریعے حاصل نہیں کی جاتی۔ البتہ وہ اس عورت کا بیٹا ہے کیونکہ اس کاماں کا تعلق یقینی ہے۔بدکاری کرنے والے مردوں میں سے کسی کا عورت سے جائز تعلق نہیں تھا۔ اس لئے وہ ان میں سے کسی کابیٹا قرار نہیں دیا جاسکتا۔