کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 65
نکاح کے موقع پر ہم دونوں کے خاندانوں کا کوئی فرد موجود نہیں تھا۔ البتہ بعض دوسرے حاضرین موجود تھے۔ نکاح اور ولیمہ مختصر وقت میں ہوگیا۔ اس وقت میں دوسرے مقام پر زیر تعلیم تھی۔ چند سال گزر نے کے بعد میری تعلیم مکمل ہوگئی اور میں اس کے ساتھ کینیڈا جانے کے لئے تیار ہوگئی۔ تب غیر متوقع طور پر اس نے کہا کہ ’’تمہیں الگ سے ویزا کی درخواست دینا پڑے گی، اور میں وطن پہنچ کرتمہاری کفالت کرنے پر تیار نہیں ہوں ، اور ممکن ہے وہاں مجھے اپنے گھر والوں کو خوش کرنے کے لئے ایک اور شادی کرنی پڑے۔‘‘ حالانکہ اس کے خاندان نے ایک دن بھی یہ نہیں کہاکہ انہیں ہماری شادی کی وجہ سے کوئی مشکل درپیش ہے۔
مجھے تو اس کا دوسری بیوی سے تعلق رکھنے کا خیال بہت نکما اور ہلکا محسوس ہوتا ہے جبکہ وہ پہلی بیوی کا خیال نہیں رکھتا۔ وہ مجھے خرچ بھی نہیں دیتا۔ ہمارا آپس میں رابطہ زیادہ تر انٹر نیٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ مجھے اس کے اس طرزِ عمل سے سخت دکھ پہنچتا ہے۔مجھے اس کی دوسری شادی پر کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ وہ اپنی پہلی بیوی کے حقوق اداکرے، یا اس کا کوئی ایسا پروگرام ہو کہ مجھے اپنے ساتھ لے جائے، تاکہ میں اس کے ساتھ رہوں ۔ میں چاہتی ہوں کہ اس معاملے میں کوئی فیصلہ کرلوں ۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ میرے ایمان اور طرزِ حیات کا امتحان ہے۔ تو کیا آپ کوئی مشورہ دے سکتے ہیں ؟
جواب:ازدواجی زندگی کے متعلق دو ہی راستے ہیں : یا اچھے طریقے سے رکھنا، یااچھے طریقے سے چھوڑ دینا۔ خاوند اور بیوی دونوں کے حقوق بھی ہیں اور فرائض بھی۔ جنہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوسکتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کی بے رخی محسوس کرے تو اپنے کچھ حقوق سے دست بردار ہوجائے، مثلاً باری کا حق یا خرچ کا حق وغیرہ۔
٭ خلاصہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے خاوند کے ساتھ بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ جذبات سے ہٹ کر بات کرنی چاہئے۔ دونوں فریق کھلے دل سے صاف صاف بات کریں ، اور ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھیں ۔ اگر دونوں کومحسوس ہو کہ وہ اللہ کے احکام کی حدود میں یہ تعلق قائم رکھ سکتے ہیں (خواہ مکمل حقوق کی ادائیگی کی ساتھ یا اس کم سے کم حد تک اتفاق کرکے جو