کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 63
کردیا ہے اور اسے یقین ہوجائے کہ ان دونوں کا مل جل کر رہنا مکمل طور پر ناممکن ہوچکا ہے اور ان کے درمیان تعلقات میں واقع ہونے والی خرابی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس کی اِصلاح کی اُمید نہیں رہی۔ واللہ أعلم
خاوند کی قید کی صورت میں بیوی کتنی مدت انتظار کرے؟
٭ سوال ۱۱ : بہت سی نو مسلم خواتین کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آتا ہے کہ خاوند کو پانچ دس سال کے لئے قید کی سزا مل جاتی ہے اور وہ اپنے اس (قیدی) خاوند سے طلاق لینا چاہتی ہیں ۔ بعض اوقات عورت صاف کہہ دیتی ہے کہ اگر اسے طلاق نہ دلوائی گئی تو وہ ناجائز تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ لہٰذاکتنی مدت کے بعد طلاق یا فسخ نکاح کا فیصلہ دینا چاہئے؟ جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ ایک عام امریکی خاتون اپنے جذبات پرچھ ماہ سے زیادہ قابو نہیں رکھ سکتی۔
اسی طرح اگر خاوند کہیں چلا جائے اور معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کہاں ہے توکتنی مدت کے بعد عورت کے حق میں طلاق کا فتویٰ جاری کرنا چاہئے؟
جواب: جب خاوند قید ہوجائے اور عورت صبر نہ کرسکے تو اسے طلاق کا مطالبہ کرنا جائز ہے، خواہ اس کے اخراجات کے لئے خاوند کا مال موجود ہو۔ جو شخص جیل میں ہو، یا حبس بے جا میں ہو، جس کی وجہ سے اس کی بیوی اس سے نکاح کے فوائد حاصل نہ کرسکتی ہو، اس کاحکم گم شدہ آدمی کی بیوی کا ہے[1]،اس پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ یہ مسئلہ اجتہاد پر مبنی ہے کہ عورت کو