کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 60
نزدیک نکاح فوراً فسخ ہوجاتا ہے،بعض کہتے ہیں کہ عدت ختم ہونے تک موقوف رہتا ہے، بعض کہتے ہیں کہ اگر عورت انتظار کرنے کا فیصلہ کرلے تو وہ مرد کے مسلمان ہونے تک موقوف رہتا ہے۔ واللہ اعلم
خُلع کے قواعد اور طریقہ کار
٭ سوال ۹: اگر عورت اپنے خاوند سے خُلع لینا چاہے تو اس ملک میں امام کو کن قواعد وضوابط کاخیال رکھنا چاہئے؟
جواب:اُصولی طور پر خُلع کے ذریعے عورت کو آزاد کرنا مرد کا حق ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو اسے شریک کئے بغیر حل نہیں کرناچاہئے۔ کیونکہ وہی حق رکھتا ہے کہ اپنی بیوی کونکاح میں رکھے یا چھوڑ دے۔ لیکن بعض حالات میں قاضی کی مداخلت کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً اگر خاوند زیادتی کرتا ہے اور عورت کے تفریق کے مطالبہ کو تسلیم نہیں کرتا، تب قاضی ان میں صلح کرانے یا تفریق کرانے کے لئے مداخلت کرتا ہے۔ اگر وہ ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش میں ناکام ہوجائے تب وہ خاوند کو حکم دے گا کہ خُلع کرلے۔ اگر خاوند انکا رکرے تو قاضی اس کی طرف سے خُلع کا فیصلہ کرکے عورت کو نکاح کی پابندی سے آزاد کردے گا۔ اسی طرح اگر خُلع کا مطالبہ پیش ہونے کے بعد مرد روپوش ہوجائے یا اپنا پتہ چھپالے، اور اس سے رابطہ کرنا ممکن نہ ہو، تو بھی یہی حکم ہے۔
لیکن قاضی کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کامداخلت کرنا (طلاق کے) حسب ِمعمول طریقے کے خلاف ہے۔ لہٰذا اسے چاہئے کہ خاوند کا کوئی عذر باقی نہ رہنے دے۔ اسے اطلاع دے کہ اس کی بیوی نے خُلع کا مطالبہ کیا ہے اور اسے حکم دے کہ اس کا مطالبہ تسلیم کرلے۔ دو تین بار اس طرح کرے۔ ہر دفعہ اس کے لئے مناسب مدت کا تعین کرے اور یہ یقین حاصل کرے کہ خاوند کواطلاع مل چکی ہے اور مرد کے لئے جو مدت مقرر کی گئی ہے وہ غوروفکر کے لئے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ جب کہ حسب ِامکان صلح کی کوشش کا فرض بھی ادا کیا ہو۔ اگر وہ ان سب کوششوں کے بعد بھی ناکام ہوجائے، تو عورت سے ضرر دور