کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 58
مسلمان عورت کا غیرمسلم سے نکاح کرنا؟ ٭ سوال ۷:بعض اوقات ایک لڑکی اپنے والدین کی اطاعت نہ کرتے ہوئے کسی غیر مسلم سے نکاح کرلیتی ہے۔ اس نکاح میں چونکہ اسے قوانین اور سرکار کی حمایت حاصل ہوتی ہے، اس لئے باپ کچھ نہیں کرسکتا۔ ایک بڑے عالم کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آچکا ہے جو ایک عرب اسلامی ملک میں ایک بڑی عربی یونیورسٹی کے چیئرمین تھے۔ اس لڑکی کے گھر والے شریعت کی روشنی میں اس سے کس قسم کے تعلقات رکھ سکتے ہیں ؟ کیا اس کے گھر والے اس سے لا تعلقی کا اعلان کرسکتے ہیں ؟ یا وہ اس لڑکی سے اور اس کے خاوند سے اس اُمید پرتعلقات رکھ سکتے ہیں کہ شاید وہ مسلمان ہوجائے؟ اگر وہ مرد واقعی مسلمان ہوجائے تو کیا اس کا دوبارہ نکاح کرنا ہوگا جب کہ پہلے ان کا نکاح امریکی قانون کے تحت ہوا ہے جس میں صحیح اسلامی نکاح کی شرائط ملحوظ نہیں رکھی گئیں ۔ جواب:اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ مسلمان کا غیر مسلم مرد سے نکاح باطل اور کالعدم ہے۔ قرآن، حدیث اوراجماع سے اس کے بے شمار دلائل ملتے ہیں ۔ لہٰذا اس مشکل میں مبتلا خاندان کا اس لڑکی کے بارے میں ایک واضح موقف ہونا چاہئے جس کی وجہ سے وہ اللہ کے ہاں برئ الذمہ ہوسکے، وہ اللہ اور لوگوں کے سامنے گواہی دے سکے کہ اس لڑکی کے عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، نہ اسے یہ عمل پسند ہے۔ اس کے باوجود اگر اس مصیبت زدہ خاندان کے چند افراد اس باغی لڑکی سے اور اس کے دوست سے رابطہ رکھیں اور کوشش کریں کہ لڑکا مسلمان ہوجائے یا لڑکی تائب ہوجائے۔ کیونکہ توبہ کی گنجائش باقی ہے اور اس کے دروازے مغرب سے سورج طلوع ہونے(قیامت) تک کھلے ہیں اور بندے کی توبہ اس کی جان حلق میں پہنچنے سے پہلے بھی قبول ہوسکتی ہے۔ پھر اگر لڑکا مسلمان ہوجائے تو نئے سرے سے نکاح کرنا ضروری ہوگا۔ کیونکہ پہلا نکاح غیرشرعی اور کالعدم ہے۔ اس نکاح سے پہلے ایک حیض آنے تک انتظار کرنا ضروری ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ عورت کے پیٹ میں گذشتہ تعلقات کے اثرات نہیں ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ حلال اور حرام