کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 55
کا مقصد مستقل رہائش کی فوری اجازت حاصل کرنا ہو۔ عقد ِنکاح کے شرعی تقاضے پورے نہیں کئے جاتے۔ وہ اکٹھے رہتے ہیں اور ان کے ہاں اولاد بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس تعلق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا سرکاری قانون کے مطابق نکاح کے بعد اسلامی نکاح کی ضرورت نہیں رہتی؟ اس نکاح کو درست کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ اسلام اس تعلق کے بارے میں کیا کہتا ہے جو کئی سال سے قائم ہے اور اس کے نتیجے میں اس شخص کی اولاد بھی پیدا ہوئی ہے؟ جواب:مسلمان مرد کا نکاح اہل کتاب کی کسی عورت سے جائز ہے بشرطیکہ وہ ’محصنہ‘ ہو۔یہاں اِحصان کا مطلب زنا سے بچ کر پاک دامن زندگی گزارنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتبَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ (النساء:۲۴) ’’جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، ان کی پاک دامن عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں ۔‘‘ اس نکاح کے لئے ضروری ہے کہ اس میں اسلامی شریعت کے مطابق اَرکان و شروط کا لحاظ رکھا جائے۔ امریکی عدالت میں کیا ہوا نکاح کئی وجوہات کی بنا پر غیر معتبر ہے : ٭ کسی کا نکاح کرنا ولایت(سرپرستی) کی ایک صورت ہے۔ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان یہ تعلق معدوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ کافروں کو مؤمنوں پر ہر گز راہ نہ دے گا۔‘‘ ٭ اس نکاح میں شرعی گواہی نہیں ہوتی۔کیونکہ (اس قانون میں ) گواہ مقرر کرنا لازمی قرار نہیں دیا گیا اور (کاغذات میں ) صرف ایک گواہ کی جگہ رکھی گئی ہے۔ ٭ عورت کے ولی(سرپرست)کی عدم موجودگی۔ اکثر اہل علم کے نزدیک عورت کا نکاح اس کے سرپرست ہی کرسکتے ہیں ۔ اگر ہم اس مسئلہ میں وہ حنفی مسلک بھی اختیار کرلیں جو عام طور پر مشہور ہے تو اس نکاح میں دوسری خرابیاں بہرحال موجود ہیں ۔ ٭ چونکہ صورتِ حال یہ ہے، لہٰذا مرد کو چاہئے کہ نئے سرے سے نکاح کرے جس میں شرعی ارکان و شروط کو پورا کرے۔ اس عقد ِفاسد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو اس مرد کی جائز اولاد تسلیم کیا جائے گا، کیونکہ اس تعلق میں عقد ِنکاح کا شبہ موجود ہے۔