کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 54
اِزدواجی تعلقات کی وجہ سے اس کے بچے کہلاتے ہیں ۔
٭ علاوہ ازیں یہ معاہدۂ نکاح متعہ سے مشابہ ہے جو بالاتفاق حرام ہے۔ یعنی جب وہ اس بات پر اتفاق کرلیتے ہیں کہ رہائش کی قانونی اجازت ملتے ہی ان کے اِزدواجی تعلقات ختم ہوجائیں گے تو یہ متعہ بن جاتا ہے۔
جب ایک مسلمان خاتون کسی غیر مسلم مرد سے اس قسم کا معاہدہ کرتی ہے تو معاملہ زیادہ شنیع اور حرام ہوجاتا ہے، کیونکہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ مسلمان عورت کا غیرمسلم سے نکاح کرنا حرام ہے اور اس قسم کانکاح کالعدم ہے۔ اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر مرد اس سے مقاربت کی خواہش ظاہر کرے تو عورت خود کو گناہ سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان قانونی طور پر شوہر بیوی کا تعلق ہے، اور اس تعلق میں اس کا پہلو کمزور ہے، اور عورت کی یہ خواہش بھی ہوگی کہ مرد کو ناراض نہ کرے تاکہ اس کی اس ملک میں رہائش کی اجازت ختم نہ ہوجائے۔
اگر اسے نکاح تسلیم نہ کیاجائے تب بھی مفاسد کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ مثلاً نکاح کے مقدس بندھن کی بے حرمتی اور اس کے شرعی مقاصد سے خروج، جھوٹ اور دھوکا جس کا کوئی جواز نہیں ، فتنہ کا شدید احتمال، کیونکہ ان کے درمیان قانونی تعلق اُنہیں ایک دوسرے سے ناجائز تعلق قائم کرنے کی طرف راغب کرسکتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس (کاغذی) شادی میں ایسے حرام اُمور پائے جاتے ہیں جن میں اللہ اور قیامت پر ایمان رکھنے والا مؤمن کسی کوتاہی کے ارتکاب کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ایسی حرکت وہی کرسکتا ہے جس کا نہ دین ہے، نہ اخلاق نہ شرافت۔
٭ سوال میں جو حدیث مذکور ہے وہ ان الفاظ کے ساتھ تو ہمارے علم میں نہیں ، البتہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مروی ہے ، مثلاً تین کام ایسے ہیں جن کا مذاق بھی حقیقت ہے، اور حقیقت بھی حقیقت ہے: نکاح، طلاق اور غلام آزاد کرنا۔
مسلمان کا امریکی عدالت میں کتابیہ عورت سے نکاح کرنا؟
٭ سوال ۴: ایک مسلمان کسی مسلم ملک سے آکر کسی کتابی عورت سے نکاح کرے جس