کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 53
طور پر جب کہ خاوند کو مقدمے کا علم نہیں ، نہ اس کا موقف سنا گیا ہے۔ اس قسم کے فیصلے کے نتیجے میں عورت پہلے خاوند سے الگ نہیں ہوتی۔ نہ کسی اور مرد کو اس سے نکاح کرنا حلال ہے۔ لہٰذا اس کی بنیاد پر کیا ہوا دوسرا نکاح لامحالہ فسخ قرار پائے گا۔
بعض شہری مفادات کے لئے پیپر میرج
٭ سوال ۳ :ایک مسلمان کسی ملک میں مستقل رہائش کی اجازت حاصل کرنے کے لئے کسی عورت کو کچھ رقم دے کراس سے نکاح کرلیتا ہے، لیکن نہ اس سے اِزدواجی تعلقات رکھتا ہے، نہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اس شخص کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح اگر عورت یہ کام کرے تو کیا یہ گناہ ہے؟ یا یہ مسلمان مردوں اور عورتوں کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے کے لئے جائز ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں اس کا کیا حکم ہے کہ جس نے مذاق میں نکاح کیا یا طلاق دی، وہ اس کے لئے لازم ہوجائے گا؟
جواب:شریعت میں نکاح کا معاہدہ ہمیشہ اکٹھے رہنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کامقصد باہمی آرام و سکون، پاک دامنی اور اولاد کا حصول ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں فریقین پر ایک دوسرے کے حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں ۔ نکاح کے معاہدے کو اس میدان سے خارج کرنے کی ہر کوشش شارع کے مقصود سے انحراف ہے۔ اس نام نہاد شادی (Paper Marriage) کو صحیح نکاح تسلیم کیاجائے یا نہ کیاجائے، بہرحال اس میں بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں ، جن میں چند ایک یہاں ذکر کی جاتی ہیں :
٭ اگر اسے نکاح تسلیم کیا جائے تو اس کے بہت سے مفاسد سامنے آتے ہیں مثلاً بے غیرتی کو قبول کرنا اور بیوی کا اس کے ماتحت نہ ہونا۔ کیونکہ اس صورت میں خاوند کو بیوی پر کوئی اختیار نہیں ہوتا، نہ اسے اس کی حرکات کا کوئی علم ہوتا ہے۔ وہ اسے دوسرے مردوں کے ساتھ دوستی لگانے سے منع کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
٭ اس سے نسب محفوظ نہیں رہتا۔ اس دوران اگر عورت سے اولاد ہوجائے تو وہ افراد خاوند کے خاندان میں شامل ہوجاتے ہیں جو اصل میں اس سے نہیں ، وہ قانونی پہلو سے