کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 52
اس قسم کے مسائل علما اور ماہرین کی آرا کی روشنی میں شرعی فیصلہ کی بنیاد پر طے ہونے چاہئیں ۔ اس میں عدل و انصاف کو پوری طرح ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے۔ نکاح وطلاق کے مسائل خاوند کے علم میں لائے بغیر عدالت سے طلاق حاصل کرنا ٭ سوال ۲: بعض مسلمان عورتیں (غیر اسلامی) عدالت میں جاکر طلاق کا مطالبہ کرتی ہیں اور عدالت ۹۰دن بعد اس کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے جبکہ خاوند کو علم ہی نہیں ہوتا۔ کیا یہ طلاق شرعی طور پر مؤثر ہوجاتی ہے؟ اگر عورت اس کے بعدنکاح کرلے تو کیا اس کا دوسرا نکاح درست ہوگا؟ یا اس طلاق کو زبردستی کی طلاق شمار کیاجائے گا؟ جواب:طلاق کا مطالبہ اُصولی طور پر خاوند سے ہونا چاہئے، کیونکہ وہی حق زوجیت کا مالک ہے۔ طلاق کے معاملہ میں قاضی کو کوئی اختیار نہیں ، اِلا یہ کہ عورت تکلیف میں ہو، یا خاوند تک پہنچنا ممکن نہ ہو، مثلاً وہ ایسی جگہ غائب ہے جہاں پہنچنا ممکن نہیں ۔ اس صورت میں طلاق کا وہ فیصلہ نافذ ہوگاجو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے والی اسلامی عدالت کی طرف سے جاری کیا جائے۔ مذکورہ صورت حال میں اسلامی قاضی کو، یا مسلمان کمیونٹی کی طرف سے مقرر کردہ فرد کو، چاہئے کہ پہلے وہ خاوند سے رابطہ کرکے اسے حالات سے آگاہ کرے، پھر اس کاجوابِ دعویٰ سنے، اس کی تحقیق کرے، اس کے بعد کوئی کارروائی کرے۔ جس طرح کسی بھی مقدمے میں صرف ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اس طرح یہاں بھی ہے۔ قضا کے معاملے میں غیرمسلم قاضی کو مسلمان مرد یا عورت پرکوئی شرعی اختیار نہیں ۔ اس پر علما کااتفاق ہے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا﴾ (النساء :۱۴۱) ’’اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہر گز راہ نہ دے گا۔‘‘ اس لئے کسی غیر اسلامی اتھارٹی کی جاری کی ہوئی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں ۔ خاص