کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 51
٭ مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں طلاق کی خواہش مند خاتون کو غیر شرعی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ وہ اسے شریعت سے زیادہ دلوائے گی۔ لہٰذا اس کی طرف رجوع کرنے کی صورت میں وہ گنہگار ہوگی۔ اگر اس کو جائز سمجھتی ہے تو کفر اکبر کے ایک عمل کی مرتکب شمار ہوگی۔ اور جب وہ اپنے خاوند سے جتنامال شریعت کے حکم کے خلاف وصول کرے گی، وہ حرام مال ہوگا، جسے وصول کرنا اور اس پر قبضہ کرنا حرام ہوگا۔ اگر وہ طویل عرصہ تک اس کے قبضے میں رہے، تب بھی حلال نہیں ہوگا۔ ٭ اگر عورت غیر شرعی جج سے فیصلہ کرانے پر مجبور ہو، اور وہ اس کے حق میں اس مال کا فیصلہ کردے جو شریعت اسے نہیں دلواتی، اور عورت اس باطل امر پر مصر ہو، اس صورت میں جائز ہے کہ کوئی شخص اصلاح کی نیت سے اس عورت سے بات چیت کرکے اسے اس چیز سے دست بردار ہونے پر آمادہ کرے جو جج نے تو اسے دلوائی ہے لیکن شرعی طور پر اس کا حق نہیں ۔ یہ حسب ِمقدور خرابی کو کم کرنے اور ظلم کو ہلکا کرنے کی صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فَاتَّقُوْا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ ’’اللہ سے ڈرو، جتنی تمہیں طاقت ہو۔‘‘ اس نیت سے مداخلت کرنے والا ثواب کا مستحق ہے کیونکہ شریعت کا بنیادی اُصول مصالح کا حصول وتکمیل اور مفاسد سے رکاوٹ اور تقلیل ہے۔ واللّٰه اعلم ٭ یہاں ایک نیا سوال بھی درپیش ہے جو مغربی معاشروں کا ہی خاصہ ہے کہ وہاں مالی کفالت صرف مرد کے ذمے ہونے کی بجائے مردوعورت دونوں ہی کمائی کرتے ہوں اور دونوں اپنے مال سے گھرکی تعمیر وتکمیل میں حصہ لیتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شادی کا تعلق قائم رہنے کی مدت کے دوران مالی معاملات ایک دوسرے سے متعلق ہونے کی بنا پرمالی حقوق کا فیصلہ کس طرح کیا جائے؟ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر خاوند اور بیوی دونوں کام کرتے تھے۔ اور ان دونوں کی آمدنی سے انہوں نے کوئی گھر یا زمین خریدی تو اس وجہ سے عورت کا اس گھر یا زمین میں ایک مستقل حق بن جاتا ہے جس کا طلاق کی بنا پر طے پانے والے حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔