کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 50
٭ جب شرعی عدالتیں تو موجود نہ ہوں لیکن حاملین ِشریعت علما سے (انفرادی سطح پر) فیصلہ کروانا ممکن ہو، تو پھر اس کی پابندی ضروری ہے۔ اجتہادی مسائل میں ان کے فیصلے تسلیم کرنا اور ان پر عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ قاضی کے فیصلے اور شرعی ثالث کے فیصلے سے اختلاف ختم ہوجاتا ہے۔ علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی علاقے میں شرعی حکمران موجود نہ ہو تو یہ معاملات طے کرنا علما کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ تب علاقے کے علما ہی شرعی حاکم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لہٰذا مغربی معاشرے میں رہنے والی مسلمان کمیونٹی کو چاہئے کہ ایسے انتظامات کرے کہ مسلمان اپنے جھگڑوں کے فیصلے شریعت کے مطابق کروا سکیں ، اور ایسے افراد متعین ہونے چاہئیں جو شرعی احکام کی روشنی میں ان کے جھگڑے طے کرسکیں ۔ ٭ جب یہ صورت ممکن نہ ہو، کیونکہ فریق ِمخالف علمائے شریعت کے فیصلے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ، اور اسے ایک بااختیار حاکم ہی ظلم سے روک سکتا ہے، تب اپنا حق حاصل کرنے اور ظلم سے نجات پانے کے لئے رائج قوانین کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ جب کوئی اور راستہ نہ رہے تو ان کی طرف رجوع کرنے والا کسی ملامت کا مستحق نہیں ۔ کیونکہ شریعت سے فیصلہ نہ کروانے والے کے نفاق اور کفر کے بارے میں جو نصوص وارد ہیں ، وہ ایسے حالات میں نازل ہوئی تھیں جب شریعت ِمطہرہ کے مطابق فیصلہ کروانا ممکن تھا۔ اس وقت جو شریعت سے اِعراض کرتا تھا، وہ اپنی خوشی اور اختیار کے ساتھ، طاغوت کے فیصلے کو اللہ اور رسول کے فیصلے سے بہتر سمجھ کر شریعت سے اعراض کرتاتھا۔ ٭ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ اس (غیر شرعی عدالت) کے سامنے جو مطالبہ پیش کیا جائے وہ شریعت کی رو سے جائز ہو۔ اس کے صرف اس فیصلے پر عمل کرنا حلال سمجھا جائے جو شریعت کے مطابق ہو۔ مثلاً اگر ایک مقروض جو آسانی سے قرض واپس کرسکتا ہے لیکن بلا وجہ ٹال مٹول کرتا ہے۔ اس کے خلاف موجودہ عدالت میں صرف اصل قرض کی واپسی کا دعویٰ دائر کیا جائے۔ اگر عدالت مدعی کے حق میں کچھ سود کی رقم کا بھی فیصلہ دے، تو اس کے لئے (سود کی ) یہ رقم وصول کرنا حرام ہوگا کیونکہ یہ شریعت کے خلاف ہے۔