کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 49
جواب : جو عدالت شریعت کو چھوڑ کر انسانوں کے خود ساختہ قوانین کے مطابق فیصلے کرتی ہے، اس کے سامنے مقدمہ دائر کرنا جائز نہیں ، خواہ وہ مسلمانوں کے ملک میں ہو یا غیر مسلم ملک میں ؛ بشرطیکہ اس کا متبادل شرعی انتظام موجود ہو جو حق دار کو حق دلوا سکے، اور مظلوم کی داد رسی کرسکے۔ اس بارے میں قرآن و حدیث کی نصوص بہت زیادہ ہیں ، اور اس پرعلما کااجماع ہوچکا ہے۔ وہ تمام دلائل جن سے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا وجوب ظاہر ہوتا ہے، اور شریعت سے پہلو تہی کرنے والوں کاکفر و نفاق ثابت ہوتا ہے ، وہ سب اس مسئلہ میں نص کا درجہ رکھتے ہیں ۔ کیونکہ جب شریعت کے مطابق فیصلہ کروانا ممکن ہو تو اُسے چھوڑ کر دوسری طرف متوجہ ہونا منافقت ہے، جس کے ساتھ ایمان موجود نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اَلَمْ تَرَ اِلٰی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ آمَنُوْا بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ أَنْ یَّتَحَاکَمُوْا إِلی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ أُمِرُوْا أَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَیُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلَالاً بَعِیْدًا، وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا إِلی مَا أَنْزَلَ اللّٰهُ وَإِلی الرَّسُوْلِ رَأَیْتَ الْمُنَافِقِیْنَ یَصُدَّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا﴾ (النساء:۶۰،۶۱)
’’کیا آپ نے وہ لوگ نہیں دیکھے جو سمجھتے ہیں کہ وہ آپ پرنازل ہونے والی (شریعت) پر، اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی (کتابوں ) پر ایمان رکھتے ہیں ۔ (اس کے باوجود) چاہتے ہیں کہ ’طاغوت‘ سے فیصلہ کروائیں حالانکہ انہیں اس کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انہیں دور تک گمراہ کردینا چاہتا ہے، اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی نازل کی ہوئی (شریعت ) کی طرف اور رسول کی طرف آجاؤ تو آپ دیکھتے ہیں کہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رک جاتے ہیں ۔‘‘
مزید فرمایا:
﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَیُؤْمِنُوْنَ حَتّی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء :۶۵)
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ ایمان دار نہیں ہوسکتے جب تک آپس کے جھگڑوں میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ۔ پھر جو فیصلے آپ اُن میں کردیں ، ان سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرماں برداری کے ساتھ (اُنہیں )قبول کرلیں ۔‘‘