کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 46
موضوع پر’ غریب القرآن‘ اور’ مشعل القرآن‘ دو کتابیں تصنیف کیں اور یہ دونوں ’القرطین‘ کے نام سے طبع ہوکر مصر سے شائع ہوچکی ہیں ۔
امیر قنوجی (۱۳۰ھ) نے ’الاکسیر‘ میں ابن قتیبہ کو تیسرے طبقے کا ذکر کیا ہے۔ ابوعبیدالقاسم بن سلام کی ’غریب القرآن‘ کاتذکرہ الفہرسۃ ابن ندیم میں بھی ملتا ہے۔ نیز ابن ندیم نے لکھا ہے کہ ’’موصوف نے ’معانی القرآن‘ کے نام سے بھی ایک تفسیر لکھی ہے۔(الفہرست ص۱۱۲)
ابوعبدالرحمن یزیدی نے بھی ’غریب القرآن‘ کے نام سے اس موضوع پر کتاب لکھی ہے۔ ( الفہرست : ص۸۸)
سمعانی ’کتاب الانساب ‘میں لکھتے ہیں کہ
’’یزیدی کی یہ کتاب نہایت جامع ہے، علامہ قنطی نے ’الانباہ‘ میں اسکا تذکرہ کیا ہے۔‘‘ (الانباہ للقنطی: ص۱۵۱ ج۲)
امام راغب رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ’مفردات القرآن ‘جس کے ترجمہ کی سعادت راقم الحروف نے حاصل کی ہے، تقریباً پندرہ سو اُناسی مواد پر مشتمل ہے۔ گویا قرآن کے کل مواد ۱۶۵۵ میں سے صرف ۶۶ متروک ہیں ۔ مصنف نے اپنی کتاب کو حروفِ تہجی کے مطابق ترتیب دیا ہے اور ہر کلمہ کے حروفِ اصلیہ میں سے پہلے حرف کی رعایت رکھی ہے۔ طریق بیان فلسفیانہ ہے۔ یعنی اوّلا ً ہر مادہ (Root) کے اصل معنی متعین کرتے ہیں ۔پھر اس اعتبار سے وہ لفظ قرآن میں جتنے مقامات پراستعمال ہوا ہے، اسے اصل معنی کی طرف لوٹاتے ہیں ، تشریح ِلغت میں یہ طریق اُصولی حیثیت رکھتا ہے اور اسے اختلاف کی صورت میں کسوٹی قرار دیا جاسکتا ہے۔ پھرمصنف ہر کلمہ کی تشریحات کے سلسلہ میں ان تمام آیات کے اِحصا کی کوشش کرتے ہیں جن میں وہ کلمہ استعمال ہوا ہے تاکہ آیات کے سیاق و سباق سے صحیح مفہوم سامنے آجائے اور اس میں کسی قسم کااشتباہ باقی نہ رہے۔
امام راغب کے بعد متاخرین نے بھی غریب القرآن پر مستقل تصانیف لکھی ہیں جن میں سے ’تحفۃ الاریب بما فی القرآن من الغریب‘ لابی حیان محمد بن یوسف اندلسی ( ۷۴۵ھ)،