کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 45
کے واسطہ سے روایت کرتے تھے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اسی نسخہ پر اعتماد کیا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تحسین کی ہے۔[1] ان تفسیروں کی نسبت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف صحیح ہو یا نہ ہو، مگر اس سے یہ اشارہ ہوتا ہے کہ وہ مفرداتِ قرآن کی تشریحات کے سلسلہ میں شعر اور کلامِ عرب سے استشہاد کرتے تھے۔ 2. غریب القرآن کے سلسلے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بعد ابان بن ثعلب بن رباح جریری، ابو سعید اکبری مولیٰ بنی جریر بن عباد ابوامامہ (۱۴۱ھ) کا نام لیا جاتا ہے جن سے امام مسلم اور اصحابِ سنن روایت کرتے ہیں ، انہوں نے بروایت ِابوجعفر اور ابو عبداللہ’ غریب القرآن‘ میں ایک تفسیر مرتب کی جس میں شعراے عرب کے کلام سے شواہد پیش کئے۔[2] ان کے بعد بہت سے علما نے ’معانی القرآن‘، ’اعجاز القرآن ‘اور’ غریب القرآن‘ کے نام سے تفاسیر لکھیں جو کہ الفہرست ازابن ندیم، کشف الظنون از حاجی خلیفہ اور مفتاح السعادۃ میں مذکور ہے۔ جن علما نے اس موضوع پر کتابیں لکھیں ، ان میں سے ابوزکریا یحییٰ بن زیاد الفراء (۲۰۷ھ)، ان کے تلمیذ ابوعبدالرحمن عبداللہ بن یحییٰ نیریدی (۲۶۰ھ)، ابوعبیدہ معمر بن مثنیٰ تمیمی(۲۱۰ھ)، ابواسحق ابراہیم بن محمد سری زجاج (۳۱۰ھ) اور امام راغب اصفہانی۵۰۲ھ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جنہوں نے مجاز القرآن، معانی القرآن اور غریب القرآن تین ناموں سے کتابیں تصنیف کیں جن میں سے ’مجاز القرآن‘ از ابوعبیدہ طبع ہوچکی ہے۔ یہ کتاب ترتیب ِمصحف پر ہے، مگر فراء کی ’معانی القرآن‘ اس سے زیادہ اہم ہے، اس لئے کہ فراء علم وعقیدہ کے اعتبار سے ابوعبیدہ سے زیادہ راسخ تھے اور انہوں نے یہ کتاب اپنے تلمیذ عمر بن بکر کی درخواست پر اِملا کروائی تھی۔ چنانچہ ابن ندیم الفہرسۃ ص۱۰۶ پر لکھتے ہیں : ولہ من الکتب کتاب معاني القرآن ألفہ لعمر بن بکیر أربعۃ اجزاء ’’فرا ء نے ’معانی القرآن‘ عمر بن بکر کے لئے تصنیف کی تھی جو چار اجزا پر مشتمل ہے‘‘ ابن قتیبہ دنیوری، اسحق بن راہویہ اور ابوحاتم سجستانی کے شاگرد ہیں ، موصوف نے اس