کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 44
محتویات کیا ہیں ، چنانچہ علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر ’جامع البیان‘ میں لکھتے ہیں :
’’الفاظِ قرآنی کے معانی معلوم کرنے کے لئے تو کتب ِلغت کی طرف رجوع کیا جائے گا، مگر آیات کے مفہوم کا پتہ چلانے کے لئے کتب ِلغت کی بجائے وحی الٰہی اور سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے راہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے جس کی طرف قرآن کریم نے ﴿لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا أنْزِلَ إلَیْھِمْ﴾ کہہ کر اشارہ فرمایا ہے۔ مثلاً کسی اہل زبان (عرب) کے سامنے جب یہ آیۂ کریمہ ﴿وَإذَا قِیْلَ لَھُمْ لاَ تُفْسِدُوْا فِیْ الاَرْضِ قَالُوْا إنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ﴾تلاوت کی جائے تو جس حد تک لفظ ’فساد‘ اور ’اصلاح‘ کے لغوی معانی کا تعلق ہے، اسے وہ خوب سمجھ سکتا ہے مگر وہ یہ نہیں بتا سکتا کہ کون سے اُمور موجب ِاصلاح ہیں ، اور کون سے موجب ِفساد؟ یہ بات تو وہی بتاسکتا ہے جس پر قرآن نازل ہوا ہے۔‘‘(ماخوذ از تفسیر طبری:ج۱/ ص۳۳،۳۴ )
مندرجہ بالا تصریحات سے واضح ہے کہ کتب ِلغت سے الفاظ کے مواردِ استعمال کے تتبع سے کسی حد تک مفردات کے حل میں تو مدد مل سکتی ہے، مگر یہ ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ تفسیر کے دوسرے سرچشموں سے صرفِ نظر کرکے محض اسی کو مدار قرا ردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس عنصر سے فی الجملہ استفادہ کیاہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا۔چنانچہ تفسیر طبری،الکشاف للزمخشری اور ’بحر محیط‘ لابی سفیان، جو اسی سلسلہ کی بہترین تفاسیر شمار ہوتی ہیں اور ان میں لغوی تشریحات اور شواہد کا خاصا مواد موجود ہے، انہوں نے بھی تفسیر کرتے وقت کتاب و سنت اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو مدنظر رکھا ہے تاہم بعض علما نے شرح الغریب کا خصوصی اعتنا بھی کیاہے اور ’مفرداتِ راغب‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، لہٰذا تفاسیر کے اس سلسلہ کے متعلق ہم بھی کچھ عرض کریں گے۔
1. غریب القرآن پر جن علما نے توجہ دی ہے، ان میں سب سے پہلے حبرالأمۃ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں ۔چنانچہ’ غریب القرآن‘ کے نام سے ایک تفسیربھی ان کی طرف منسوب ہے۔[1] اسی طرح ’التفسیر الاکبر‘ ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب ہے، اس میں علی بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ اور ابن کلبی کی روایت سے مفرداتِ قرآن کی تشریحات منقول ہے۔[2]چنانچہ علی بن ابی لیث کی روایت سے یہ نسخہ ابو صالح کاتب اللیث مصری کے پاس محفوظ تھا جسے وہ معاویہ بن ابی صالح