کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 43
1. علماء لغت نے اپنی کتابوں میں جوکچھ بیان کیا ہے وہ بہرحال تتبع اور استقرا کے بعد کیا ہے، بایں و جہ ان کے مابین الفاظ کے مفاہیم بیان کرنے اور محاورات کے نقل کرنے میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ 2. ان علما نے عام عربی زبان کو سامنے رکھ کرکتب ِلغات ترتیب دی ہیں ، خصوصیت کے ساتھ قرآنی الفاظ ان کے پیش نظر نہیں تھے اور یہ ضروری نہیں کہ عام زبان میں کسی لفظ کا جو معنی مراد لیا جاتا ہے، قرآن میں بھی وہی مراد ہو۔ 3. جن علما نے غریب القرآن کو پیش نظررکھ کر الفاظ کی لغوی تشریحات لکھی ہیں وہ مختلف مسلک اور ذوق رکھتے ہیں اور انہوں نے مفردات کی تشریح کے وقت اپنے مسلک کو پیش نظر رکھا ہے، ایسے لوگ متکلمین میں بھی ہوگذرے ہیں اور فقہا میں بھی، لہٰذا ان تفاسیر یا کتب ِلغت کا مطالعہ کرتے وقت مؤلف کے ذہن اور مسلک کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس بنا پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’الفوز الکبیر‘ میں لکھتے ہیں : ’’انصاف پسند مفسر کا فرض ہے کہ شرح الغریب کی دو مرتبہ جانچ پڑتال کرے اور موارد استعمال پر نظر ڈالے اور پھر یہ دیکھے کہ آیت کے سیاق و سباق اور اس جملہ کے باقی اجزاء کی مناسبت سے کون سا معنی اقوی اور ادنیٰ ہے پھر سیاق و سباق کے لحاظ سے جو معنی انسب نظر آئے، اسے اختیار کرلینا چاہئے۔(الفوز الکبیر: ص۶،۴) 4. تتبع ِلغت سے مفرداتِ قرآن کا جو مفہوم بھی متعین کیا جائے گا وہ مفہوم بہرحال اجتہادی ہوگا جس میں اختلاف کی گنجائش ہوسکتی ہے، اس لئے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فھٰھنا أیضا مدخل للعقل وسعۃ للاختلاف لأن الکلمۃ الواحدۃ تجییٔ في لغۃ العرب لمعان شتی ’’لہٰذا شرحِ غریب میں عقل دخیل ہوتی ہے اور اختلاف کی گنجائش پائی جاتی ہے، کیونکہ عربی زبان میں ایک ہی لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔‘‘ 5. کتب ِلغت کے تتبع سے مفرداتِ قرآن کا صرف لغوی حل تو مل سکتا ہے ،مگر ان سے یہ رہنمائی نہیں مل سکتی کہ اس لفظ سے قرآن کون سا تصور پیش کرنا چاہتا ہے اور اس کے