کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 42
ان تصریحات سے واضح ہے کہ مفسرین نے اسرائیلیات یا اسبابِ نزول کی روشنی میں آیات کے مطالب و معانی متعین نہیں کئے، بلکہ کسی حد تک آیات کے ساتھ مناسبت کے پیش نظر ان کاذکر کردیا ہے۔[1] اور محققین علما نے ان احادیث اور اسبابِ نزول کو کبھی بھی وہ حیثیت نہیں دی جس پر انہیں مورد ِالزام قرار دیا جارہا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ تفاسیر کو منقّح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تفسیر قرآن میں جو جمود سا پیدا ہوچکا ہے وہ ختم ہوجائے اور اعلیٰ علمی سطح پر کتاب ِالٰہی کے تقاضوں کے مطابق قرآن فہمی کا رجحان پیدا ہو۔
3. کتاب وسنت کے بعد اقوال ِصحابہ رضی اللہ عنہم کا درجہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نزولِ قرآن کے زمانہ میں موجود تھے جس ماحول میں قرآن نازل ہورہا تھا، اس کے اندرونی اور بیرونی اثرات ان کے سامنے تھے، چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’جب کتاب و سنت سے کسی آیت کی صحیح تفسیر معلوم نہ ہوسکے تو اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف رجوع کیاجائے، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرائن و احوال کے مشاہدہ کی بنا پر ہم سے زیادہ قرآن سمجھتے تھے، انہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و فہم صحیح اور عمل صالح سے حصہ وافر عطا فرمایا تھا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۳،۱۲)
4. اگر کسی آیت کے مفہوم پر اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی روشنی نہ پڑتی ہو، یا ان کے اقوال باہم مختلف ہوں تو اوّلا ً قرآن و سنت کی زبان اور پھر عام لغت ِعرب کے محاورات کی طرف رجوع ہوگا اور مفرادت ِقرآن کو سمجھنے کے لئے کتب ِلغت سے مدد لی جائے گی۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : الشعر دیوان العرب فاذا تعاجم علینا شیئ من القرآن رجعنا إلیہ[2]
’’ شعر کو دیوانِ عرب کی حیثیت حاصل ہے جب قرآن کا کوئی مقام سمجھنے میں دقت پیش آئے گی تو ہم اس کی طرف رجوع کریں گے۔‘‘
تفسیر قرآن میں لغت ِعرب سے استفادہ پر لکھی گئی کتب
مگر غریب القرآن کا کتب ِلغت سے حل تلاش کرتے وقت مندرجہ ذیل امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے: