کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 41
ہے۔ ورنہ اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے،بلکہ تفسیری روایات یا احادیث کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
ایک حصہ وہ ہے جسے علما نے احکام فقہیہ کا منبع قرار دیا ہے اور اس پر اَحکام قرآن کے نام سے تفسیریں بھی مدوّن کی ہیں ۔ ان روایات کی صحت اور صداقت کے نہ تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ منکر ہیں اورنہ کوئی دوسرا امام ان کو بے اصل کہتا ہے، بلکہ محدثین ِکرام رحمۃ اللہ علیہ نے پوری چھان بین اور اطمینان کے بعد ایسی روایات کو مستقل تصنیفات میں جمع کردیا ہے۔ پھر اُمت ِمسلمہ کے تعامل نے ان پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے اور علما نے سنت کے اس حصہ کو قرآن کا شارح تسلیم کیا ہے۔
دوسرا حصہ تفسیری روایات کا وہ ہے جو اَحکام سے متعلق نہیں ، بلکہ اس میں اسرائیلیات اور ضعیف روایات بھی شامل ہیں ، اس قسم کی تفسیری روایات بے شک کتب ِتفسیرمیں جمع کردی گئی ہیں ، مگر محققین نے کبھی بھی ان پر اعتمادنہیں کیا اور نہ ہی فہم قرآن کے لئے انہیں اصل قرار دیا ہے۔ مفسرین نے ان روایات کو اصل تفسیر کی حیثیت سے پیش نہیں کیا، بلکہ کسی آیت کے معنی سے ادنیٰ مناسبت کی بنا پرانہیں جمع کردیاہے۔ (ملاحظہ ہو ’الفوز الکبیر‘: ص۴۴)
لہٰذا یہ بات قابل اعتراض نہیں ۔ یہی حال سبب ِنزول یا شانِ نزول کا ہے۔ کتب ِتفسیر میں جن آیات کے تحت ان کا شانِ نزول مذکور ہے گو شانِ نزول کے علم سے آیات کے پس منظر پرروشنی پڑتی ہے، تاہم علماے تفسیر نے صرف شانِ نزول کی بنا پر کسی آیت کا قطعی مفہوم متعین نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اس کے قائل ہوئے ہیں۔ چنانچہ علمائے اُصول لکھتے ہیں کہ
’’تفسیر قرآن میں مفہوم کو پیش نظر رکھا جائے گا، اس کے اسبابِ نزول کا اعتبار نہیں ہوگا۔‘‘ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پیش آمدہ مسائل کے لئے ہمیشہ آیات کے عموم سے استدلال کیا، خواہ ان آیات کے اسبابِ نزول کچھ بھی ہوں ۔ ‘‘ (ملاحظہ ہو الاتقان : ۱/ ص۲۸، ۳۵)
اسی طرح علامہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ ’البرہان فی علوم القرآن‘ میں لکھتے ہیں :
’’صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم میں سے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہ ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ آیت سے اس نوع حکم پربھی استدلال ہوسکتا ہے۔ ‘‘ (۱/۱۲۶)
[1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ مفقود الخبر کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کی بیوی چار سال تک انتظار کرے اور بعد میں عدت وفات گزارے۔ایسا کرنے سے وہ آگے نکاح کرنے کے لیے حلال ہو جائے گی ۔یہ موقف دیگر بعض صحابہ سے بھی مروی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ِلقطہ اور دیگر بعض آثار کی وجہ سے مدتِ انتظار ایک سال کافی سمجھی ہے۔ (مدنی)