کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 39
کے قائل ہوجاتے، مگر عربوں کی مادری زبان میں نازل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر آیت کے مفہوم کا کماحقہ‘ اِدراک کرلیتے تھے اور ان کے سامنے قرآن کی تشریحات کی ضرورت نہ تھی بلکہ واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت باقاعدہ طور پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے ہم طبقہ علما سے قرآن کی تعلیم حاصل کرتی رہی۔ ان کامعمول تھا کہ دس آیات پڑھنے کے بعد جب تک ان کے مطالب پوری طرح ذہن نشین نہ کرپاتے اور عملی طور پر انہیں اپنا نہ لیتے، اس سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔(تفسیر ابن کثیر : ۱ /۳)۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پورے دس سال کے عرصہ میں سورۃ البقرۃ پڑھی اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ۸ سال میں یہ سورۃ ختم کی۔ ظاہر ہے کہ یہ محض نظم قرآن کی قراء ت یا تجویدنہ تھی، بلکہ اس کے مطالب کا ادراک اور اس پرعمل بھی اس میں شامل تھا۔ (المسویٰ شرح مؤطا :۲ /۳۱۳) اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ایسی جماعت تیار ہوگئی جنہوں نے درسِ قرآن کا سلسلہ جاری رکھا، ان میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (متوفی ۳۲ھ)، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (متوفی ۶۸ھ)، اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ (متوفی ۳۰ھ) اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (متوفی ۴۱ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور تفسیری سلسلۂ سند بھی زیادہ تر اِنہی پرمنتہی ہوتا ہے۔ ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے تابعین کی ایک جماعت نے تفسیر قرآن کا علم حاصل کیا۔ حتیٰ کہ دورِ تدوین تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح تفسیر قرآن کا معتدبہ حصہ ہم تک بذریعہ روایت پہنچا۔ تفسیر قرآن کے لئے ۴ بنیادی اُمور اس بنا پر علماے قرآن نے غوروفکر اور استقراے تامّ کے بعد قرآن فہمی کے لئے چار اُمور ضروری قرار دیئے۔ جن سے بے نیاز ہوکر قرآن کی تفسیر کی جائے تو وہ تفسیر بالرائے ہوگی جس کی حدیث میں مذمت آئی ہے، وہ چار اُمور حسب ِذیل ہیں : 1. قرآنِ کریم کی تفسیر، قرآن ہی سے تلاش کی جائے، کیونکہ قرآن نے اگر ایک مقام پر اِجمال سے کام لیا ہے تو دوسرے مقام پر خود ہی اس کی تفصیل فرما دی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنے ’مقدمتہ التفسیر‘ میں رقم طراز ہیں :