کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 38
متجمّع محاسن ہے۔ حتیٰ کہ اگریہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں کہ ع
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں جس قدر ضخیم قوامیس اور معجمات لکھے گئے ہیں ، دوسری زبانوں میں ان کاعشر عشیر بھی نہیں ملتا۔ ان معجمات کو دیکھنے سے عربی زبان کی فراخ دامانی اور جامعیت بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے۔
’صحاحِ جوہر‘ کو لیجئے وہ چالیس ہزار مواد (Roots) پر مشتمل ہے۔
’قاموس فیروزآبادی‘ (متوفی ۸۱۶ھ) میں ساٹھ ہزار مواد مذکور ہیں … اسی طرح
’لسان العرب‘ میں منظور افریقی (متوفی ۷۱۱ھ) نے اَسّی ہزار مواد سے بحث کی ہے۔
آخر میں ’تاج العروس‘ کو ملاحظہ فرمائیے جس میں سید محمد مرتضیٰ زبیدی (متوفی ۱۲۰۵ھ) نے اپنے تتبع سے ایک لاکھ بیس ہزار مواد جمع کردیے ہیں ۔
ان تصریحات کے پیش نظر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قرآن پاک ایسی جامع اور ہمہ گیر کتاب کو، جواَبدی اور ناقابل انکارِ حقائق پر مشتمل ہے، عربی زبان میں ہی نازل ہونا چاہئے تھا اور یہی زبان اس کے لئے موزوں[1] تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اپنے متعلق بار بار بزبانِ عربی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ قرآن کا اُسلوبِ بیان نہایت درجہ ’سہل ممتنع‘ ہے، اس کے مضامین و مطالب اس قدر صاف اور واضح ہیں کہ اس میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ۔
چنانچہ آیات نمبر: ۱/۸،۱۳/۳۷،۱۲/۲،۴۲/۳،۲۶/۹۵ وغیرہ میں قرآن نے خود عربی ہونے کادعویٰ کیا جس کے معنی ہیں واضح اور صاف کیونکہ لفظع رب میں اظہار اوروضاحت کے معنی پائے جاتے ہیں ۔
تفسیر قرآن کے لئے عربی زبان جاننا ہی کافی نہیں !
بلاشبہ قرآنِ پاک عربی زبان میں نازل ہوا اور عرب اہل ِزبان ہونے کی و جہ سے عام طورپر اس کے مطالب و معانی کا ادراک بآسانی کرلیا کرتے تھے۔ بلکہ قرآن کے اُسلوبِ بیان سے محظوظ ہوتے اور الفاظ کی بندش اور ان کے محتویات ہی سے متاثر ہوکر اس کی صداقت