کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 36
آدم کے وقار‘ کے ترانے ہمارے نوجوان نسل کے خام ذہنوں میں اُنڈیل رہے ہیں ۔ یہ سب مظاہرے ہمارے اندر غلامی کے جذبات کی پختگی کی علامت ہیں۔ہم ثقافتی استعماریت کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں ۔
ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور نوجوان امریکہ اور اس کے استعماری کلچر کے خلاف اس قدر بھی نفرت کے جذبات نہیں رکھتے، جتنا ہمارے ہاں کا مزدور طبقہ صنعت کار کے خلاف رکھتا ہے۔ ان کی نفرت کا اگر کوئی مستحق ہے تو وہ اسلام پسند ہیں ۔
۱۹۴۷ء میں ہم سیاسی طور پر آزاد ہوگئے تھے، مگر ہم نے مغرب کی فکری محکومی کو ترقی کا شاندار اُصول سمجھ کر گلے سے لگائے رکھا۔ آج ہم ایک دفعہ پھر ’سیاسی غلامی‘ کا طوق خوشی سے پہن چکے ہیں ۔ فکری محکومی کا تسلسل بالآخر سیاسی غلامی پر منتج ہوتا نظر آتا ہے۔ اگر ہم سیاسی طور پر آزاد رہنے کے خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے ہمیں ذہنی غلامی کا طوق اُتار کر پھینکنا ہوگا۔ [محمد عطاء اللہ صدیقی]
بلاتبصرہ
’’پسماندہ اسلام ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، کسی نے داڑھی رکھی ہے تو بسم اللہ۔ مجھے نہ کہو کہ میں داڑھی رکھوں ، میں داڑھی نہیں رکھنا چاہتا۔ فلمی پوسٹر، میوزک، داڑھی نہ رکھنا، خواتین کا برقعہ نہ پہننا، شلوار قمیص، پینٹ اور ایل ایف او چھوٹے معاملات ہیں ، انہیں ایشو نہ بنائیں ۔ یہ چھوٹی سوچ اور چھوٹے ذہن کی بات ہے۔ پاکستان کو بڑے چیلنج درپیش ہیں !!
ایشو یہ ہے کہ ملک میں کون سا نظام ہونا چاہئے؟ ہمیں تہذیب یافتہ اور جدید اسلام چاہئے۔ پاکستانی معاشرے میں طالبان طرز کے اسلام کی کوئی جگہ نہیں ۔ ایسے اسلام سے سارے منصوبے دھرے رہ جائیں گے۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہ غیر اسلامی ملک ہے؟ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے مگر ہمیں ایسا اسلام نہیں چاہئے جو معاشرے کو پسماندہ رکھے۔ ہم ترقی پسند اسلام کے حق میں ہیں ۔ فیصلہ کریں طالبان والا اسلام چاہئے یا ترقی پسند؟ ہمیں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ علما ہوش مندی سے کام لیں ۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا تصور ترقی پسند پاکستان تھا، مذہبی ریاست نہیں ۔ نفاذِ اسلام کے لئے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری قوم برداشت والاکلچر چاہتی ہے۔ اسلام میں سب کے حقوق محفوظ ہیں ۔ اس کی قدر کوسمجھیں ۔‘‘ (صدرپرویز مشرف کا خطاب از روزنامہ ’نوائے وقت‘ ۱۱/ جون ۲۰۰۳ء)