کتاب: محدث شمارہ 272 - صفحہ 35
بن کر پھیلا ہے۔ ہماری طالبات اورجواں سال خواتین جینز پہننے کو فیشن اورجدیدیت کا سمبل سمجھنا شروع ہوگئی ہیں ۔ ایسی ہوا چلی ہے کہ اچھے خاصے گھر بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔
لاہور جیسے شہروں میں ثقافتی لبرل ازم کے نام پر لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان فاسقانہ ارتباط کو فروغ دینے کے لئے شرمناک مظاہر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تجارتی مفادات کے حصول کی خاطر لاہور کی معروف شاہراہوں پر نئے سٹائل کے ایسے ایسے اشتہارات(Bill Boards)کو متعارف کرایا ہے کہ جنہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ انسان لندن یا پیرس کی کسی شاہراہ سے گزر رہا ہے۔ ان اشتہارات میں لڑکے اور لڑکیوں کی باہمی قربتوں کے ایسے ایسے مناظر دکھائے جارہے ہیں جس کا ہماری ثقافت اور تہذیب سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں میں اس کے خلاف ردّ عمل بھی سامنے آیا۔ بعض اشتہارات پر سیاہی پھینکنے کے واقعات بھی ہوئے۔ ہمارے لبرل دانشوروں نے اسے عورت کی توہین پر مبنی رویہ قرار دیا۔ ان اشتہارات میں عورت کے تقدس کی جس انداز میں تذلیل کی گئی تھی، اس کے خلاف وہ کبھی احتجاج نہیں کرتے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ذرائع ابلاغ کے بعد پاکستان کے بڑے شہروں کی شاہرات کو مغرب کے تہذیبی لبرل ازم کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
علامہ اقبال نے ۱۹۳۱ء میں خواجہ ناظم الدین تونسوی کو خط میں تحریر کیا تھا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ’اسلام کے تحفظ کا مسئلہ‘ ہے۔ یہ مسئلہ آج زیادہ شدت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے افغانستان اور عراق کو تاراج کرنے پر اکتفا ہی نہیں کیا، انہیں تہذیبی طور پر تباہ کرنے کی منصوبہ بندی بھی مکمل کرلی ہے۔ ڈیزی کٹر بموں سے تباہ شدہ یہ ممالک تہذیبی یلغار کا شکار ہیں ۔ آج اسلام ہی نہیں ، اسلامی تہذیب اپنے وجود و بقا کی کشمکش سے دوچار ہے۔ افسوس آج ہم میں نہ کوئی اقبال ہے، نہ جمال الدین افغانی جو ہمیں ان خطرات کا احساس دلائے۔ ہمارا حکمران طبقہ حادثتاً مذہبی ہونے کے باوجود عملاً مغربی ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ آج بھی امریکی معاشرہ کی ’برتری‘، وہاں کی ’آزادی‘ اور’نسل